کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 49
3۔ زائدہ(۲۲۴( 4۔ اسرائیل (۲۲۴( 5۔ ابو خیثمہ زہیر بن معاویہ (۴۳۶( 6۔ ابوالاحوص (۴۳۶( 7۔ عمر بن عبید الطنافسی (۲۴۲/۴۹۹( 8۔ سفیان الثوری (۲۸۷/۶۷۰( تحفۃ الاشراف للمزی (۱۵۴/۲ ح ۲۱۶۴( 9۔ زکریا بن ابی زائدہ ( ۲۸۷/۶۷۰( 10۔ حسن بن صالح (۷۳۴( 11۔ مالک ن مغول (۹۶۵( 12۔ ابو یونس حاتم بن ابی صغیرہ (۱۶۸۰( 13۔ حماد بن سلمہ ( ۷/۱۸۲۱( 14۔ ادریس بن یزید الاودی (۲۱۳۵( 15۔ ابراہیم بن طہمان (۲۲۷۷( 16۔ زیاد بن خیثمہ ( ۴۴/۲۳۰۵( 17۔ اسباط بن نصر (۲۳۲۹( معلوم ہوا کہ ان سب شاگردوں کی ان سے روایت قبل از اختلاط ہے لہٰذا "سفیان الثوری: حدثنی سماک" والی روایت پر اختلاط کی جرح کرنا مردود ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ "علی صدرہ" کے الفاظ سماک بن حرب سے صرف سفیان ثوری نے نقل کئے ہیں اسے ابوالاحوص، شریک القاضی نے بیان نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سفیان ثوری ثقہ حافظ ہیں اور سماع کی تصریح کررہے ہیں لہٰذا دوسرے راویوں کا "علی صدرہ" کے الفاظ ذکرنہ کرنا کوئی جرح نہیں ہے کیونکہ عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوا کرتا اور عدم مخالفت صریحہ کی صورت میں ثقہ وصدوق کی زیادت ہمیشہ مقبول ہوتی ہے بشرطیکہ اس خاص روایت میں بتصریحات محدثین کرام وہم و خطا ثابت نہ ہو۔ نیموی حنفی نے بھی ایک ثقہ راوی (امام حمیدی( کی زیادت کو زبردست طور پر مقبول قراردیا ہے، دیکھئے آثار السنن (ص ۱۷ ح ۳۶ حاشیہ: ۲۷( موطا امام مالک ( ۹۸۵/۲، ۹۸۶ ح ۱۹۱۵( میں عبداللّٰه بن دینار عن ابی صالح اسمان عب ابی ھریرۃ قال: "ان الرجل لیتکلم بالکلمۃ۔۔۔الخ ایک قول ہے۔ امام مالک ثقہ حافظ ہیں۔