کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 46
للتھانوی الدیوبندی (ص۲۱۷( 4۔ سفیان الثوری: "ما یسقط لسماک بن حرب حدیث" سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں ہوئی۔ (تاریخ بغداد ۲۱۵/۹ وسندہ حسن لذاتہ( اس قول پر حافظ ابن حجر کی تنقید (تہذیب التہذیب ۲۰۵/۴( عجیب و غریب ہے، یاد رہے کہ سماک بن حرب پر ثوری کی جرح ثابت نہیں۔ 5۔ یحییٰ بن معین: "ثقۃ" (الجرح والتعدیل ۲۷۹/۹ وتاریخ بغداد ۲۱۵/۹ وسندہ صحیح( 6۔ ابوحاتم الرازی: "صدوق ثقۃ(الجرح والتعدیل ۲۸۰/۴( 7۔ احمد بن حنبل: "سماک اصلح حدیثاً من عبدالملک بن عمیر"(الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴، ۲۸۰ وسندہ صحیح( 8۔ ابو اسحاق السبیعی: "خذوا العلم من سماک بن حرب(الجرح والتعدیل ۲۷۵/۴ وسندہ حسن( 9۔ العجلی: "جائز الحدیث" (دیکھئے اقوال جرح:۱( ذکرہ فی تاریخ الثقات 10۔ ابن عدی: "واحادیثہ حسان عن من روی عنہ وھو صدوق لا باس بہ"(الکامل ۱۳۰۰/۳( 11۔ ترمذی: انھوں نے سماک کی بہت سی حدیثوں کو "حسن صحیح" قراردیا ہے۔ (مثلاً دیکھئے ح ۶۵، ۲۰۲، ۲۲۷) بلکہ امام ترمذی نے سنن کا آغاز سماک کی حدیث سے کیا ہے (ح۱( 12۔ ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات(۵۰۵( 13۔ الحاکم: صحح لہ فی المستدرک (۲۹۷/۱( 14۔ الذہبی: صحح لہ فی تلخیص المستدرک(۲۹۷/۱( وقال الذہبی : "صدوق جلیل (المغنی فی الضعفاء: ۲۶۴۹( وقال : "الحافظ الامام الکبیر" (سیر اعلام النبلاء ۲۳۵/۵(