کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 43
بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابوالعلاء الواسطی ہے۔ (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰( یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے (تاریخ بغداد ۹۵/۳)المقرئی اور قاری (قرا علیہ القرآن بقرأت جماعۃ) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئی کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۳۹۱/۱ت ۳۲۸)وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھئے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت ۷۹۷۱) وغیرہ لہٰذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔ * عبدالرحمن بن یوسف بن خراش: "فی حدیثہ لین" (تاریخ بغداد ۶۱۶/۹( ابن خراش کے شاگرد محمد بن محمد بن داؤد الکرجی کے حالات ِتوثیق مطلوب ہیں اور ابن خراش بذات خود جمہور کے نزدیک مجروح ہے ، دیکھئے میزان الاعتدال (۶۰۰/۲ت۵۰۰۹( ابن حبان: "ذکرہ فی الثقات"(۳۳۹/۴) وقال: "یخطئ کثیراً۔۔۔ روی عنہ الثوری وشعبۃ" یہ قول تین وجہ سے مردود ہے: ۱۔ اگر ابن حبان کے نزدیک سماک "یخطئ کثیراً" ہے تو ثقہ نہیں ہے لہٰذا اسے کتاب الثقات میں ذکر کیوں کیا؟ اور اگر ثقہ ہے تو "یخطئ کثیراً" نہیں ہے، مشہور محدث شیخ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ ایک راوی پر حافظ ابن حبان البستی کی جرح " کان یخطئ کثیراً" نقل کرکے لکھتے ہیں: "وھذا من افرادہ وتناقضہ، اذلوکان یخطئ کثیراًلم یکن ثقۃ" یہ ان کی منفرد باتوں اور تناقضات میں سے ہے کیونکہ اگر وہ غلطیاں زیادہ کرتے تھے تو ثقہ نہیں تھے۔ ! (الضعفیۃ ۳۳۳/۲ ح ۹۳۰) ۲۔ حافظ ابن حبان نے خود اپنی صحیح میں سماک بن حرب سے بہت سی روایتیں لی ہیں مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان (۱۴۳/۱ ح ۶۶ص ۱۴۴ ح ۶۸، ۶۹( واتحاف المہرۃ (۶۳/۳، ۶۴، ۶۵(