کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 42
امام العجلی (مولود ۱۸۲ھ متوفی ۲۶۱ھ( نے کہا: "جائز الحدیث۔۔۔۔وکان فصیحاً الا انہ کان فی حدیث عکرمۃ ربما وصل عن ابن عباس ۔۔۔۔وکان سفیان الثوری یضعفہ بعض الضعف" (تاریخ الثقات:۶۲۱وتاریخ بغداد۲۱۹/۹( سفیان الثوری ۱۶۱ھ میں فوت ہوئے تھے لہٰذا یہ سند بھی منقطع ہے، اس کے برعکس شعبہ اور سفیان دونوں سے ثابت ہے کہ وہ سماک بن حرب سے روایتیں بیان کرتے تھے لہٰذا اگر یہ جرح ثابت بھی ہوتی تو العجلی کے قول کی روشنی میں اسے "سماک عن عکرمۃ عن ابن عباس" کی سند پر محمول کیا جاتا۔ ابن عدی نے احمد بن الحسین الصوفی(؟) ثنا محمد بن خلف بن عبدالحمید کی سند کے ساتھ سفیان سے نقل کیا کہ سماک ضعیف ہے (الکامل ۱۲۹۹/۳) محمد بن خلف مذکور کے حالات نامعلوم ہیں لہٰذا یہ قول ثابت نہیں ہے۔ 2۔ احمد بن حنبل: "مضطرب الھدیث" (الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴( اس قول کے ایک راوی محمد بن حمویہ بن الحسن کی توثیق نامعلوم ہے لیکن کتاب المعرفۃ والتاریخ یعقوب الفارسی (۶۳۸/۲)میں اس کا ایک شاہد (تائید کرنے والی روایت( بھی موجود ہے۔ کتاب العلل ومعرفۃ الرجال (۱۵۴/۱، رقم : ۷۷۵) میں امام احمد کے قول: "سماک یرفعھما عن عکرمۃ عن ابن عباس" سے معلوم ہوتا ہے کہ مضطرب الحدیث کی جرح کا تعلق صرف "سماک عن عکرمۃ عن ابن عباس" کی سند سے ہے، نیز دیکھئے اقوال تعدیل: ۷ 3۔ محمد بن عبداللہ بن عمار الموصلی: "یقولون انہ کان یغلط ویختلفون فی حدیثہ"(تاریخ بغداد ۲۱۶/۹ وسندہ صحیح( اس میں یقولون کا فاعل نامعلوم ہے۔ * صالح بن محمد البغدادی: "یضعف" (تاریخ بغداد ۲۱۶/۹( اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئی ہے جس کاتعین مطلوب ہے۔ ابو مسلم عبدالرحمن