کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 40
بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔ ۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳( السنن الکبری(۲۸/۲( المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱( اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸( ۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔ نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔ لہٰذا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ( کے کارپردازوں کو چاہیے کہ ہر جلد کے سرورق پر جہاں لکھتے ہیں کہ "یہ طبع ان ۴۹۰ ابواب پر مشتمل ہے جو ہندوستانی طبع میں رہ گئے تھے" اس نسخہ کی خصوصیت بھی بتائیں کہ "اس میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو ابن ابی شیبہ کو معلوم ہی نہ تھے بلکہ ہم (آل تقلید( نے ایجاد کئے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ نویں صدی کے قاسم بن قطلوبغا حنفی(کذاب/ قالہ البقاعی انظر الضوء اللامع ۱۸۶/۶)نے پہلی مرتبہ مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف غلط فہمی یاکذب بیانی کی وجہ سے منسوب کردیئے اور ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ)نے طابع ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ الفاظ متن میں شامل کردیئے حالانکہ نیموی نے آثار السنن میں اس اضافہ کو غیر محفوظ قراردیا تھا، لیکن انھوں نے "تمہیں بھی لے ڈوبیں گے" کے مصداق ابن خزیمہ کی روایت میں موجود "علی صدرہ" کے الفاظ کو بھی اس کی نظیر قراردے دیا حالانکہ یہ الفاظ صحیح ابن خزیمہ کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔ یہ روایت مسند بزار میں بھی "عند صدرہ" کے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔(ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۷۸/۲) اللھم ارنا الحق حقاً وارقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ آمین (۱۲ جون ۲۰۰۴ء(