کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 33
اگر راوی مختلف فیہ ہوتو وہ حسن الحدیث ہوتا ہے اور اس کی حدیث حسن ہوتی ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص۷۷ نیز ملاحظہ فرمائیں اعلاء السنن ۲۰۶/۲( تھانوی صاحب کے اس قول سے معلوم ہوا کہ مؤمل حسن الحدیث ہے اور اس کی حدیث حسن ہے کیونکہ وہ مختلف فیہ ہے! اگر کوئی کہے کہ مؤمل اس روایت میں تنہا ہے تو اس کا جواب یہ کہے کہ ۱: سفیاں ثوری سے روایت میں ثقہ ہے لہٰذا اس کی حدیث حسن ہے۔ ۲: اس کی یہ روایت کسی ثقہ راوی کے خلاف نہیں ہے۔ ۳: حافظ ابن قیم نے اس کی حدیث کو "ترک السنۃ الصحیحۃ الصریحۃ" کی مثال میں ذکر کیا ہے۔ (اعلام الموقعین ۴۰۰/۲( ۴: بہت سی احادیث اس کی شاہد ہیں مثلا حدیث سابق وحدیث لاحق۔ ۵: یہ روایت مؤمل کی وجہ سے ضعیف نہیں بلکہ سفیان الثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے، اسے حسن لذاتہ حدیث کی تائید میں بطور شاہد پیش کیا گیا ہے۔ نیز دیکھئے ماہنامہ "الحدیث" حضرو جلد اول شمارہ ۱ ص۲۶ شاہد نمبر ۲ قال ابوداؤد فی سننہ : "حدثنا ابوتوبۃ : ثنا الھیثم یعنی ابن حمید عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علیٰ یدہ الیسریٰ ثم یشد بھما علیٰ صدرہ وھو فی الصلاۃ" طاؤس تابعی سے (مرسل( روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ رکھتے تھے۔(نن ابی داؤد مع بذل المجہود ۴۸۲/۴ ح ۷۵۹( سند کی تحقیق: اس روایت کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہے: