کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 32
مؤمل بن سعید پر بخاری کی جرح حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے ذکر تک نہیں کی۔ (مثلاً ملاحظہ لسان المیزان ج۶ ص۱۶۱( بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کا ذکر "الضعفاء" میں نہیں کیا۔ متقدمین ومتاخرین جنھوں نے ضعفاء کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں مثلاً ابن عدی ، ابن ھبان، عقیلی اور ابن لاجوزی وغیرہم ، انھوں نے مؤمل بن اسماعیل پر بخاری کی یہ نقل نہیں کی لہٰذا معلوم ہوا کہ حافظ مزی کو اس کے انتساب میں وہم ہوا ہے۔ ذہبی اور ابن حجر نے اس وہم میں ان کی اتباع کی ہے۔ اس کی دیگر مثالیں بھی ہیں مثلاً ملاحظہ کریں العلاء بن الحارث۔ (میزان الاعتدال ج۳ ص ۹۸ مع حاشیہ( تطبیق وتوفیق جارحین کی جرح عام ہے اور معدلین کی تعدیل میں تخصیص موجود ہے۔ یحیٰ بن معین نے مؤمل بن اسماعیل کو سفیان ثوری کی روایت میں ثقہ قراردیا ہے۔ (الجرح والتعدیل الابن ابی حاتم ۳۷۴/۸شرح علل الترمذی لابن رجب ص ۳۸۴، ۳۸۵( مؤمل کی سفیان ثوری سے روایت کو ابن خزیمہ ، دارقطنی، حاکم، ذہبی ، ترمذی اور ابن کثیر نے صحیح و قوی قرار دیا ہے۔ (دیکھئے ص ۳۲،۳۳( متقدمین میں سے کسی امام نے بھی مؤمل کو سفیان الثوری کی روایت میں ضعیف نہیں کہا لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ ثوری سے روایت میں ثقہ ہیں۔ اسی لیے ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بھی اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ (دیکھئے اعلاء السنن ج۳ ص ۱۰۸( اس طرح جارحین و معدلین کے اقوال میں تطبیق وتوفیق ہوجاتی ہے اور تعارض باقی نہیں رہتا۔ دیوبندیہ کا ایک عجیب اصول تھانوی صاحب فرماتے ہیں: "ان الراوی اذا کان مختلفا فیہ فھو حسن الحدیث وحدیثہ حسن"