کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 31
ابوزرعہ الرازی: فی حدیثہ خطا کثیر(یہ قول ابوزرعہ سے ثابت نہیں ہے( ۲: یعقوب بن سفیان: یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا۔۔۔۔(المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳( * الساجی: صدوق کثیر الخطا ولہ اوھام (یہ قول ثابت نہیں ہے( ۳: ابن سعد: ثقۃ کثیر الغلط (طبقات ابن سعد ۵۰۱/۵( * ابن قانع: صالح یخطئ (یہ قول ثابت نہیں ہے( ۴: الدارقطنی: صدوق کثیر الخطا (سوالات الحاکم للدارقطنی : ۴۹۲( *محمدبن نصر المروزی: سیئ الحفظ کثیر الغلط (یہ قول ثابث نہیں ہے( ۵: ابن حجر : صدوق سیئ الحفظ (تقریب التہذیب : ۷۰۲۹( اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ائمہ محدثین کی اکثریت کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ یا حسن الحدیث اور ثقہ دعدد کثیر کی بات عدد قلیل پر حجت ہے۔ ]مؤمل بن اسماعیل پر تفصیل بحث کے لیے دیکھئے ص ۲۸ تا ۳۸[ تنبیہ: حافظ مزی، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بغیر کسی سند کے امام بخاری سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے مؤمل مذکور کے بارے میں کہا: "منکر الحدیث" امام بخاری کی یہ جرح ہمیں ان کی کسی کتاب میں نہیں ملی، التاریخ الکبیر (۴۹/۸)میں بخاری مؤمل بن اسماعیل کا ترجمہ لائے ہیں مگر اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ ظفر احمد تھانوی صاحب ایک قاعدہ بتاتے ہیں کہ " کل من ذکرہ البخاری فی "تواریخہ" ولم یطعن فیہ فھو ثقۃ" ہر وہ شخص جس کو (امام)بخاری اپنی توراریخ میں بغیر طعن کے ذکر کریں تو وہ (دیوبندیوں کے نزدیک) ثقہ ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص ۲۲۳( اس بات سے قطع نظر کہ یہ اصول اصلاً باطل ہے، تھانوی صاحب کے نزدیک امام بخاری کی رائے میں مؤمل بن اسماعلیل ثقہ ہے، واللہ اعلم۔ امام بخاری نے مؤمل بن سعید الرحبی کو ذکر کرکے "منکر الحدیث" کہا ہے۔ (التاریخ الکبیر ج ۸ ص ۴۹(