کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 21
تینوں محولہ کتابوں میں یہ قول بلا سند وبلاحوالہ درج ہے جبکہ اس کے برعکس امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو التاریخ الکبیر (ج۸ ص۴۹ ت۲۱۰۷) میں ذکر کیااور کوئی جرح نہیں کی۔امام بخاری کی کتاب الضعفاء میں مؤمل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اور صحیح بخاری میں مؤمل کی روایتیں موجود ہیں۔ (دیکھئے ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳ فتح الباری( حافظ مزی فرماتے ہیں: "استشھد بہ البخاری" اس سے بخاری نے بطور استشہاد روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸( محمد بن طاہر المقدسی (متوفی ۵۰۷ھ( نے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے: "بل استشھد بہ فی مواضع لبیین انہ ثقۃ" بلکہ انھوں (بخاری( نے کئی جگہ اس سے بطور استشہاد روایت لی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ ثقہ ہے۔ (شروط الائمۃ الستہ ص۱۸( معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہے ، منکر الحدیث نہیں ہے۔ابن سعد: "ثقۃ کثیر الغلط" (الطبقات الکبری لابن سعد ۵۰۱/۵( 4۔ دارقطنی: "صدوق کثیر الخطا"(سوالات الحاکم للدارقطنی: ۹۴۲( یہ قول امام دارقطنی کی توثیق سے متعارض ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکین میں مؤمل کا تذکرہ موجود نہیں ہے جو اس کی دلیل ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔ * عبدالباقی بن قانع البغدادی: "صالح یخطئ"(تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰( یہ قول بلا سند ہے اور خود عبدالباقی بن قانع پر اختلاط کا الزام ہے۔ بعض نے توثیق اور بعض نے تضعیف کی ہے۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۵۳۲/۲، ۵۳۳( حافظ ابن حجر العسقلانی: "صدوق سیئ الحفظ"(تقریب التہذیب : ۷۰۲۹( 6۔ احمد بن حنبل: "مؤمل کان یخطئ"(سوالات المروزی:۵۳ وموسوعۃ اقوال الامام احمد ۴۱۹/۳(