کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 15
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔(فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔دلیل نمبر ۲:
قال الامام احمد فی مسندہ: "ثنا یحیی بن سعید عن سفیان حدثنی سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن ابیہ قال: رایت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورایتہ یضع ھذہ علی صدرہ/وصف یحیی الیمنی علی الیسریٰ فوق المفصل"ہلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز سے فارغ ہوکر) دائیں اور بائیں (دونوں) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ یحیی (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر (عملاً)بتایا۔
(مسنداحمد ۲۲۶/۵ح۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۲۸۳/۱(سند کی تحقیق۱۔ یحیی بن سعید (القطان(: ثقۃ متقن حافظ امام قدوۃ من کبار التاسعۃ (تقریب التہذیب: ۷۵۵۷)۲۔ سفیان (الثوری): ثقۃ حافظ فقیہ عابدامام حجۃ من روؤس الطبقۃ السابعۃ وکان ربما دلس (تقریب التہذیب: ۲۴۴۵(۳۔ سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔(تقریب التہذیب: ۲۶۲(