کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 13
زیلعی حنفی لکھتے ہیں کہ: "وتصحیح الحاکم لا یعتد بہ" (نصب الرایہ ۳۴۴/۱(
یعنی حنفیوں کے نزدیک حاکم کی تصحیح کسی شمار وقطار میں نہیں ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابن خزیمہ نے تو عبدالرحمٰن پر جرح کی ہے۔ دیکھئے کتاب التوحید (ص۲۲۰(
یاد رہے کہ عبدالرحمٰن مذکور کی تحت السرۃ والی روایت کو کسی محدث وامام نے صحیح یا حسن نہیں کہا، لہٰذا امام نووی کی بات صحیح ہے کہ یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔
عبدالرحمٰن کے اساتذہ میں زیاد بن مجہول ہے۔ (تقریب التہذیب: ۲۰۷۸(نعمان بن سعد کی توثیق سوائے ابن حبا کے کسی نے نہیں کی اور اس سے عبدالرحمٰن روایت میں تنہا ہے لہٰذا حافظ ابن حجر نے کہا: "فلا یحتج بخیرہ" (تہذیب التہذیب ۴۰۵/۱۰(عبدالرحمٰن الواسطی نے "عن سیار ابی الحکم عب ابی وائل قال قال ابو ھریرۃ۔۔۔"کی ایک سند فٹ کی ہے، اس کے بارے میں امام ابو داؤد نے کہا:"وروی عن ابی ھریرۃ ولیس بالقوی"اور ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے اور وہ قوی نہیں ہے۔(سنن ابی داؤد ج ۱ ص۴۸۰ حدیث ۷۵۷(
دلیل نمبر ۲:وعن انس ۔۔۔ ووضع الیدی الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃتحت السرۃ جائزہ:اس روایت کی سند میں ایک راوی وعید بن زربی ہے۔(الخلافیات للبیہقی قلمی ص۳۷ ومختصر الخلافیات ۳۴۲/۱(سعید بن زربی سخت ضعیف راوی ہے۔حافظ ابن حجر نے فرمایا: "منکر الحدیث"یہ (شخص) منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔ (تقریب التہذیب : ۲۳۰۴(
تنبیہ: محلی ابن حزم اور الجوہر النقی میں یہ روایت بغیر سند کے مذکور ہے۔دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ناف سے اوپر سینے پر ہاتھ باندھنے چاہییں۔