کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 12
۱۶۔ ابن جوزی نے اس کو الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا اور کہا: "وویحدث عن النعمان عن المغیرۃ احادیث مناکیر" (۸۹/۲ ت ۱۸۵۰)
اور کہا: "المتھم بہ عبدالرحمٰن بن اسحاق"(الموضوعات ۲۵۷/۳(
۱۷۔ الذہبی نے کہا: ضعفوہ (الکاشف ج ۲ ص ۲۶۵(۱۸۔ ابن حجر نے کہا: کوفی ضعیف (تقریب التہذیب : ۳۷۹۹(۱۹۔ نووی نے کہا: ھو ضعیف بالاتفاق (شرح مسلم ج۴ ص ۱۱۵، نصب الرایہ ج ۱ ص ۳۱۴(۲۰۔ ابن الملقن نے کہا: فانہ ضعیف (البدر المنیر ۱۷۷/۴(الزرقانی نے بھی شرح مؤطا امام مالک (ج۱ ص ۳۲۱) میں کہا: "واسنادہ ضعیف"
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جمہور محدثین کرام کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے بعض نے اس کو متہم اور متروک بھی کہا لہٰذا اس کی روایت مردود ہے۔
اسی لیے حافظ ابن حجر نے کہا: "واسنادہ ضعیف"(الدرایہ ۱۶۸/۱(بیہقی نے کہا: "لایثبت اسنادہ"نووی نے کہا: "ھو حدیث متفق علی تضعیفہ" (نصب الرایہ ج۱ ص۳۱۴(زیلعی حنفی نے تو اس کی کوئی تردید نہیں کی مگر نصب الرایہ کے متعصب محشی فرماتے ہیں:
"ترمذی نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کی حدیث کی تحسین اور حاکم نے تصحیح کی ہے" حالانکہ ترمذی اور حاکم دونوں ان لوگوں کے نزدیک تساہل کے ساتھ مشہور ہیں۔ ترمذی نے کثیر بن عبداللہ کی حدیث کی تصحیح کی ہے جبکہ کثیر کو کذاب بھی کہا گیا ہے ، اسی لیے بقول حافظ ذہبی "علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے۔"(میزان الاعتدال ۴۰۷/۳(حاکم نے مستدرک میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی حدیث کی تصحیح کی ہے ، حالانکہ یہی حاکم اپنی کتاب "المدخل الی الصحیح" میں لکھتے ہیں:"روی عن ابیہ احادیث موضوعۃ لا یخفی علی من تاملھا من اھل الصنعۃ ان الحمل فیھا علیہ" (ص۱۰۴)