کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 10
تقلید پرستی کا ایک عبرتناک واقعہ
حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی فرماتے ہیں:
"ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک مرتبہ تین عالم (حنفی ، شافعی اور حنبلی) مل کر ایک مالکی کے گھر گئے اور پوچھا کہ تم ارسال کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ : میں امام مالک کا مقلد ہوں دلیل ان سے جاکر پوچھو، مجھے دلائل معلوم ہوتے تو تقلید کیوں کرتا ، تو وہ لوگ ساکت ہوگئے۔"
(تقریر ترمذی ص۳۹۹ مطبوعہ کتب خانہ مجیدیہ ملتان(
معلوم ہوا کہ تقلید کرنے والا دلیل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور نہ دلیل سنتا ہے ، یاد رہے کہ امام مالک سے ارسال یدین قطعاً ثابت نہیں ہے۔ مالکیوں کی غیر مستند کتاب "مدونہ" کا حوالہ مؤطا امام مالک کے مقابلے میں مردود ہے۔اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے۔ اور نمازمیں ہاتھ نہ باندھنا خلاف سنت ہے، اب ہاتھ کہاں باندھیں جائیں اس میں اہل حدیث اور اہل الرائے کا اختلاف ہے۔
ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا اور اس کا تجزیہاہل الرائے کا دعویٰ ہے کہ ہاتھ ناف سے نیچے باندھے جائیں ۔ ان کے پیش کردہ دلائل درج ذیل ہیں:دلیل نمبر۱:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں سنت یہ کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
(سنن ابی داؤد ۴۸۰/۱، ۴۸۱ ح ۷۵۸، ۷۵۶(جائزہ:اس روایت کا دارومدار عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی پر ہے۔