کتاب: نماز میں کی جانے والی غلطیاں اور کوتاہیاں - صفحہ 23
کرتے ہوئے مقتدی امام کی قراء ت سنتے ہیں مثال کے طور پر امام قرآن پاک کی یہ آیتیں پڑھتا ہے کہ: ’’ نماز انسان کو فحاشی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ (عنکبوت:۴۵) ’’ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ‘‘۔ (حجرات:۱۲) ’’ ہر اس شخص کیلیئے تباہی ہے جو لوگوں پر طعن کرنے والا اور برائیاں نکالنے والا ہے‘‘۔ (ھمزہ:۱) ’’ ناپ تول میں کمی نہ کرو ‘‘۔ (بنی اسرائیل:۳۵) ’’شراب اور جُوا گندے اور شیطانی کام ہیں‘‘۔ (مائدہ:۹۰) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کرتے ہوئے سورہ اخلاص یعنی قُلْ ھُوَا للّٰہُ اَحَدٌ کی تلاوت کرتا ہے، یا پھر یہ آیت تلاوت کرتا ہے کہ: ’’ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو‘‘۔ (النساء:۶۵) وغیرہ امام کی جہری تلاوت دراصل مقتدیوں کیلیے یاددہانی اور برین واشنگ کی طرح ہوتی ہے مگر ان سب آیات کے بار بار سننے کے باوجُود ہمارے کانوں پرجُوں تک نہیں رینگتی اور یہ آیات ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہی نمازی نماز ادا کرنے کے بعد فحاشی کے کاموں میں بڑھ چڑھکر حصہ لیتے ہیں، برائیوں سے دوسروں کو منع کرنا تو کجا خود ان میں ملوّث ہوتے ہیں، غیبت کرتے ہیں، طعن و تشنیع اور دوسروں کی برائیاں بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتے، دوکان میں بیٹھ کر ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، شراب پیتے اور جُوا کھیلتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر شرک جیسی بیماری میں مبتلا ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو چھوڑ کر طرح طرح کی بدعات میں مبتلا ہیں۔اس کی وجہ صرف اور صرف نماز کو سوچ سمجھ کر نہ پڑھنا اور اس کا اثر قبول نہ کرنا ہے۔ نماز کو غور و فکر سے پڑھنے کی ضرورت آخر کیوں ؟ نماز کو غور و فکر سے پڑھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جتنا سوچ سمجھ کر نماز پڑھی ہو گی اتنا ہی ثواب ملے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک بندہ نماز پڑھتا ہے مگر ہر آدمی کا