کتاب: نماز میں کی جانے والی غلطیاں اور کوتاہیاں - صفحہ 14
اپنے ہاتھ کو اس برتن میں رکھنے کی، میں اس سے ایک لقمہ لوں گا، پھر اس کو منہ میں رکھوں گا، پھر اس کو چبائوں گا ، آخر اس کو نگل لوں گا تاکہ میں سیر ہو سکوں‘‘۔ کوئی عقلمند اس قسم کی حرکت نہیں کرے گا کیونکہ نیت کرنا اس امر کا غمّاز ہے کہ نیت کرنے والے کو امرِ واقعہ کا پورا پورا علم ہے۔ جب آدمی کو پتہ ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے تو پکی بات ہے کہ اس نے اس کام کی نیت بھی ضرور کی ہو گی۔ ۔۔۔اور چاروں ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زبان سے نیت کرنا مشروع نہیں‘‘۔ (فتاوی ابن تیمیہ:۱/۲۳۲)
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور اس سے پہلے کچھ نہ کہتے اور نہ ان مروجہ الفاظ کے ساتھ نماز کی نیت کرتے تھے۔ کسی نے اس کے متعلق بسند صحیح کوئی چیز نقل نہیں کی، حتی کہ کسی ضعیف و مرسل روایت میں بھی ان میں سے ایک لفظ بھی مروی نہیں ہے، بلکہ کسی صحابی سے بھی یہ الفاظ ثابت نہیں اور نہ ہی تابعین اورچار اماموں میں سے کسی نے زبان کے ساتھ نیت کرنے کو مستحسن قرار دیا ہے‘‘۔ (زاد المعاد لابن قیم : ۲۰۱)
علّامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں:
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کو تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے تھے‘‘۔ (دیکھیئے :صحیح مسلم:۱۱۱۰)
اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ نیت کرتا ہوں واسطے نماز کے وغیرہ‘‘ الفاظ سے نماز شروع نہیں کرتے تھے لہٰذا یہ بالاتفاق بدعت ہے، بعض نے حسنہ اور سیئہ کا فرق بیان کیا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ عبادت کے معاملے میں ہر بدعت گمراہی ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (( کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلَّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ)) اس بات کا تقاضا کرتا ہے ۔
(صفۃ الصلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۷۶)