کتاب: نماز میں کی جانے والی غلطیاں اور کوتاہیاں - صفحہ 13
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی کتنے دور ہیں جس میں ہے:
’’ تم میں سے ہر ایک نگران اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے اور اسکی رعیت کے بارے میں اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔ (بخاری)
لہٰذا ہر گھر کے سربراہ کو چاہیئے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے اہل خانہ کو بھی نماز کی پابندی کی تلقین کرے تاکہ عدم ِپابندیٔ نماز کی وجہ سے وہ خود اور اسکے اہلِ خانہ ہلاکت میں نہ پڑیں۔
۲ ......نیت کا زبان سے ادا کرنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر ایک کیلیئے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے‘‘۔ (بخاری)
نماز میں نیت کرنا ضروری ہے اسلیے کہ نمازی کو معلوم رہے کہ وہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے نمازِ ظہر ہے یا عصر اور کونسی رکعات ادا کر رہا ہے فرض یا سنت۔ لیکن اکثر لوگ نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرتے ہیں جیسے:
’’اس امام کے پیچھے میں نماز پڑھ رہا ہوں، اتنی رکعات سنت یا فرض ، فلاں نماز کی، منہ میرا خانہ کعبہ کی طرف وغیرہ ‘‘ ۔
یہ طریقہ درست نہیں کیونکہ ’’نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔‘‘ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ:۱/۲۰۹وشرح وقایہ وغیرہ)
اسی بناء پر اکثر علماء نے زبان کے ساتھ نیت کرنے کو بدعت شمار کیا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
علّامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’ زبان سے نیت کرنا دین اور عقل دونوں کے خلاف ہے، دین کے خلا ف اسلیےکہ یہ بدعت ہے اور عقل کے خلاف اسلیے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی کھانا تناول کرنا چاہتا ہو تو وہ کہے :’’میں نیت کرتا ہوں