کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 97
الفَجْرِ ما لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ ’’نماز ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور (اس وقت تک رہتا ہے) جب تک آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر نہ ہو جائے (عصر کے وقت تک) اور نماز عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک آفتاب زرد نہ ہو جائے۔ نماز مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غائب نہ ہو جائے۔ نماز عشاء کا وقت ٹھیک آدھی رات تک ہے۔ اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک آفتاب طلوع نہ ہو۔‘‘ [1] ’’شفق‘‘ اس سرخی کو کہتے ہیں جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے کنارے پر مغرب کی جانب دکھائی دیتی ہے۔ نماز فجر اندھیرے میں پڑھنی چاہیے: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر پڑھ لیتے تو عورتیں (مسجد سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر) اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی واپس جاتی تھیں۔ وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔‘‘ [2] معلوم ہوا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں اول وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ اگرچہ نماز کا وقت صبح صادق سے سورج طلوع ہونے تک ہے لیکن اول وقت میں پڑھنا افضل ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا کر اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے۔[3] اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طورپر نماز اول وقت میں ادا کرتے تھے، البتہ بعض مواقع پر (مختلف وجوہ کی بنا پر) نماز تاخیر سے بھی ادا کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اول وقت میں نماز پڑھنا افضل عمل ہے۔‘‘ [4]
[1] صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 612 [2] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 867، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 645 [3] [حسن] السنن الکبرٰی للبیھقي، الصلاۃ: 435/1، حدیث: 2046، والمستدرک للحاکم، الصلاۃ، حدیث: 682، وسندہ حسن، امام حاکم نے المستدرک: 190/1 میں اور امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اسے صحیح کہا ہے۔ [4] [صحیح] السنن الکبرٰی للبیھقي، الصلاۃ: 434/1، حدیث: 2043۔ امام حاکم نے المستدرک: 981/1 میں، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 327میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 280 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔