کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 93
1 عادل حاکم۔ 2 وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں جوانی گزارے۔ 3 وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو، جس وقت نماز پڑھ کر نکلتا ہے تو مسجد کی طرف دوبارہ آنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ 4 وہ دو شخص جو (صرف) اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں (جب) ملتے ہیں تو اسی کی محبت میں اور جداہوتے ہیں تو اسی کی محبت میں۔ 5 وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور (محبت یا خشیت سے) اس کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑتے ہیں۔ 6 وہ شخص جسے کسی اونچے خاندان والی، خوبصورت عورت نے (برائی کے لیے) بلایا(دعوت گناہ دی) تو اس شخص نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ 7 وہ شخص جس نے اللہ کے نام پر کچھ دیا تو اسے اتنا مخفی رکھا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو علم نہ ہوا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ( خیرات کو بالکل مخفی رکھتا ہے)۔‘‘ [1] مساجد میں خوشبو کے اہتمام کا حکم: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ’’محلوں میں مسجدیں بناؤ۔ (جہاں نیا محلہ آباد ہو، وہاں مسجد بھی بناؤ) اور انھیں پاک صاف رکھو اور خوشبو لگاؤ۔‘‘ [2] نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ لوگ مسجدوں پر فخر کریں گے۔‘‘ [3] مسجد میں آکر نماز ادا کرنے والوں کے لیے خوشخبری: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اندھیروں میں (نماز کے لیے) مسجد کی طرف چل کر آنے والوں کو قیامت کے دن پورے نور کی خوشخبری سنا دو۔‘‘ [4] مسجد میں مشرک داخل ہو سکتا ہے کیونکہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ
[1] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 660، وصحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: 1031۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 455، وھو حدیث صحیح، وسنن ابن ماجہ، المساجد، حدیث: 759,758، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1294 میں اور امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 306 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [3] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 449، وسندہ صحیح، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1322 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [4] [صحیح] سنن ابن ماجہ، المساجد، حدیث: 780، وسندہ حسن، امام حاکم نے المستدرک: 212/1 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔