کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 87
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم نماز ادا کرو تو اپنا جوتا پہن لو یا اسے اتار کر اپنے قدموں کے درمیان رکھو۔‘‘ [1] ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہودیوں کی مخالفت کرو، وہ جوتے اور موزے پہن کر نماز ادا نہیں کرتے۔‘‘ [2] نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم مسجد میں آؤ تو جوتوں کو اچھی طرح غور سے دیکھ لو، اگر ان میں گندگی یا نجاست نظر آئے تو انھیں زمین پر اچھی طرح رگڑو، پھر ان میں نماز ادا کرو۔‘‘ [3] وضاحت: اس دور میں مسجدوں کے فرش کچے ہوتے تھے اور جوتوں کے تلوے بھی عام طورپر ہموار ہوتے تھے جو زمین پر رگڑنے سے پاک ہو جاتے تھے۔ آج اکثر مسجدوں میں صفیں، دریاں یا قالین بچھ گئے ہیں اور جوتوں کے تلووں میں بسا اوقات گندگی پھنس جاتی ہے جو زمین پر رگڑنے سے نہیں نکلتی، لہٰذاآج اگر کوئی شخص جوتے پہن کر نماز ادا کرنا چاہے تو اسے طہارت کا مکمل اہتمام کرنا چاہیے ورنہ جوتے اتار کر نماز پڑھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب تم نماز ادا کرو تو اپنے جوتے دائیں یابائیں نہ رکھو بلکہ قدموں کے درمیان رکھو کیونکہ تمھارا بایاں دوسرے نمازی کا دایاں ہو گا۔ ہاں اگر بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہو تو بائیں جانب رکھ سکتے ہو۔‘‘ [4] سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حارث رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ پیچھے سے بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اٹھے اور ان کا جوڑا کھول دیا۔ جب ابن حارث رحمہ اللہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھنے لگے: تمھیں میرے سر سے کیا سروکار تھا؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’بے شک اس طرح کے آدمی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مشکیں بندھی ہوئی حالت میں نماز ادا کرے۔‘‘[5]
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 655، وسندہ صحیح، امام حاکم نے المستدرک: 260,259/1 میں اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 652، وسندہ صحیح، امام حاکم نے المستدرک: 260/1 میں اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [3] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 650، وسندہ صحیح، امام حاکم نے المستدرک: 260/1، میں، ذہبی اور نووی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [4] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 654،655، وسندہ صحیح، امام حاکم نے المستدرک: 259/1 میں، امام ذ ہبی اور امام نووی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [5] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 492۔