کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 86
محمد بن منکدر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو وہ ایک ہی کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور ان کی چادر ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان سے کہا: ابو عبداللہ! آپ کی چادر پڑی رہتی ہے اور آپ نماز پڑھ لیتے ہیں تو انھوں نے فرمایا:ہاں، میں نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے اور میں نے چاہا کہ (میں بھی ایسا ہی کروں تاکہ) تمھارے جیسے جاہل مجھے (اس طرح نماز پڑھتے ہوئے) دیکھ لیں۔[1] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ یہود کی مخالفت کی خاطر، نماز میں سدل کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے کہ یہودی سدل کرتے ہیں۔[2] سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو نماز میں سدل کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: گویا یہ یہودی ہیں جو اپنے عبادت خانے سے باہر آئے ہیں۔[3] معلوم ہوا کہ نماز میں یہودیوں کی طرح گردن پر کپڑا لٹکانا (سدل کرنا)جائز نہیں۔ وضاحت: سدل یہ ہے کہ (سر، یا) کندھوں پر اس طرح کپڑا ڈالا جائے کہ وہ دونوں طرف لٹکتا رہے۔ اگر سر یا گردن پر کپڑے کو بل دے دیا (لپیٹ لیا) جائے، پھر اس کے دونوں کنارے لٹکیں تو یہ سدل نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتیں نماز فجر ادا کرتی تھیں تو وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوتی تھیں۔[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر نہیں ہوتی۔‘‘ [5] ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ران قابل ستر ہوتی ہے؟‘‘ یعنی اسے چھپانا چاہیے۔[6] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نماز میں ننگے پاؤں کھڑے ہوتے اور کبھی آپ نے جوتا پہن رکھا ہوتا تھا۔[7]
[1] صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 370 [2] ابن أبي شیبۃ: 259/2، حدیث: 6483۔ [3] ابن أبي شیبۃ، حدیث: 6480۔ [4] صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 372، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 645۔ [5] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 641 وھو حدیث صحیح، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 775 میں اور امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ [6] سنن أبي داود، الحمام، حدیث: 4014، وھو حدیث حسن۔ [7] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 653، وسندہ حسن، وسنن ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، حدیث: 1038، امام طحاوی نے اسے متواتر کہا ہے۔