کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 82
تیمم کا بیان
پانی نہ ملنے کی صورت میں طہارت کی نیت سے پاک مٹی کا قصد کر کے اسے ہاتھوں اور چہرے پر ملنا تیمم کہلاتا ہے۔
پانی نہ ملنے کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً: مسافر کو سفر میں پانی نہ ملے یا پانی کے مقام تک پہنچنے پر نماز کے فوت ہو جانے کا خطرہ ہو یا وضو کرنے سے مریض کو مرض میں اضافے کا خوف ہو یا پانی حاصل کرنے میں جان کا ڈر ہو، مثلاً: گھر میں پانی نہیں ہے، باہر کرفیو نافذ ہے، یا پانی لانے میں کسی دشمن یا درندے سے جان کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں ہم تیمم کر سکتے ہیں، چاہے یہ رکاوٹیں برسوں قائم رہیں، رُکاوٹوں کی موجودگی میں تیمم بھی بدستور جائز رہے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصعيدُ الطيبُ وضوءُ المسلمِ ولو إلى عشرِ سنينَ
’ ’پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے اگرچہ دس برس پانی نہ پائے۔‘‘ [1]
علماء نے دس برس سے کثرت مدت مراد لی ہے۔
جنابت کی حالت میں تیمم:
سیدنا عمران رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز مکمل کر لی تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو لوگوں سے الگ بیٹھا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ’’تمھیں! لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنےسے کس چیز نے روکا؟‘‘ اس نے کہا: مجھے جنابت لاحق ہوگئی ہے اور پانی
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 332، وسندہ حسن وحدیث: 333، وھو حدیث صحیح، وجامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث:124، امام ترمذی نے، امام حاکم نے المستدرک: 177,176/1 میں اور امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 196 میں اسے صحیح کہا ہے۔