کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 76
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستو کھائے، پھر کلی کر کے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [1]
موزوں وغیرہ پر مسح کے متعلق احکام و مسائل:
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كُنْتُ مع النبيِّ صلی اللہ علیہ وسلم في سَفَرٍ، فأهْوَيْتُ لأنْزِعَ خُفَّيْهِ، فَقالَ: دَعْهُما، فإنِّي أدْخَلْتُهُما طاهِرَتَيْنِ. فَمَسَحَ عليهما
’’میں ایک سفر میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔میں نے وضو کے وقت چاہا کہ آپ کے دونوں موزے اتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انھیں رہنے دو۔ میں نے انھیں طہارت کی حالت میں پہنا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح کیا۔‘‘ [2]
شریح بن ہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کرنے کی مدت کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے (مسح کی مدت)تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات مقرر فرمائی ہے۔[3]
وضاحت: امام نووی، اوزاعی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ مسح کی مدت موزے پہننے کے بعد، وضو کے ٹوٹ جانے سے نہیں بلکہ پہلا مسح کرنے سے شروع ہوتی ہے، یعنی اگر ایک شخص نماز فجر کے لیے وضو کرتا ہے اور موزے یا جرابیں پہن لیتا ہے، پھر نمازِ ظہر کے لیے وضو کرتے وقت اس نے موزوں یا جرابوں پر مسح کیا تو اگلے دن کی نماز ظہر تک وہ مسح کر سکتا ہے۔
سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حالت سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حکم دیتے تھے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین راتوں تک پاخانہ، پیشاب یا سونے کی و جہ سے نہ اتاریں (بلکہ ان پر مسح کریں)۔ ہاں، جنابت کی صورت میں (موزے اتارنے کا حکم دیتے تھے)۔ [4]
[1] صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 209۔
[2] صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 206۔
[3] صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث: 276۔
[4] [صحیح] جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: 96 وسندہ حسن، وسنن النسائي، الطھارۃ، حدیث: 127، امام ترمذی نے، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 196میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 179 میں اور امام نووی نے المجموع: 479/1 میں اسے صحیح کہا ہے۔