کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 71
حدیث: 139میں،امام نووی نے المجموع (360/1) میں اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہم نے التلخیص الحبیر (78/1) میں ضعیف کہا ہے۔ امام نووی اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ ایک چلو پانی سے آدھا پانی منہ میں اور آدھا ناک میں ڈالنا ہے۔[1] کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ثبوت بھی ایک اور حدیث میں ہے۔ شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا علی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کو دیکھا، انھوں نے وضو کیا، تین تین دفعہ (اعضاء کو دھویا) پھر دونوں نے فرمایا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضو کیا تھا۔ اور (شقیق نے) بیان کیا کہ ان دونوں نے کلی اور ناک کے لیے الگ الگ پانی لیا تھا۔[2] ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کانوں کا تعلق سر سے ہے۔‘‘ [3] اس کا مطلب یہ ہے کہ کانوں کے لیے نئے پانی کی ضرورت نہیں۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ کانوں کا حکم چہرے والا نہیں کہ انھیں دھویا جائے بلکہ ان کا حکم سر والا ہے، یعنی ان کا مسح کیا جائے۔ واللّٰہ أعلم۔ کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینے والی روایت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام، حدیث: 37 میں شاذ قرار دیا ہے۔ ٭ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (گدی کے نیچے) گردن کے (الگ) مسح کے بارے میں قطعاً کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔[4] گردن کے مسح کی روایت کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔ وضاحت: سر اور کانوں کے مسح کے بعد اُلٹے ہاتھوں کے ساتھ گردن کا مسح کسی صحیح و مقبول حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ وضو کے بعد کی مسنون دعائیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص بھی پورا وضو کرے، پھر یہ کہے:
[1] المجموع: 397/1، وزاد المعاد، فصل في ھدیہ في الوضوء: 192/1۔ [2] التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ، ص: 588، حدیث: 1410، وسندہ حسن لذاتہ۔ [3] [صحیح] سنن الدار قطني: 98/1، حدیث: 327، وسندہ قوي، امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس روایت کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھیے: التحقیق في اختلاف الحدیث لابن الجوزي: 95,94/1، حدیث: 153۔ [4] زاد المعاد، فصل في ھدیہ في الوضوء: 195/1۔