کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 66
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ہم میت کو غسل دیتے، پھر ہم میں سے بعض غسل کرتے اور بعض نہ کرتے۔[1] دونوں احادیث کو ملانے سے مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ جو شخص میت کو غسل دے، اس کے لیے نہانا مستحب ہے، ضروری نہیں۔ واللّٰہ أعلم۔ نو مسلم کے لیے غسل: سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ وہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کریں۔[2] عیدین کے روز غسل: نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدالفطر کے روز عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔[3] سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جمعہ، عرفہ، قربانی اور عیدالفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔[4] یہ عیدین کے روز غسل پر سب سے اچھی دلیل ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس مسئلے میں اعتماد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر پر ہے، اور اس کی بنیاد جمعے کے غسل پر قیاس ہے۔[5] احرام کا غسل: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حج کا احرام باندھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔[6] مکے میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوتے وقت غسل کرتے تھے۔[7]
[1] [صحیح] السنن الکبرٰی للبیھقي: 306/1، وسنن الدارقطني: 72/2، حدیث: 1802، وسندہ صحیح، حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر: 138/1 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [2] [حسن صحیح] سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 355، وھو حدیث صحیح، وجامع الترمذي، الجمعۃ، حدیث: 605۔ وقال: ’’حسن‘‘ امام نووی نے المجموع: 152/2 میں اسے حسن جبکہ امام ابن خزیمہ نے حدیث: 255,254 میں اور امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 234 میں صحیح کہا ہے۔ [3] [صحیح] الموطأ للإمام مالک، العیدین، باب العمل في غسل العیدین، حدیث: 436، و سندہ صحیح۔ اس کی سند أصح الأسانید ہے۔ [4] [صحیح] السنن الکبرٰی للبیہقي: 278/3، والشافعي في الأم: 163/7، وسندہ صحیح، وشرح معاني الآثار: 119/1۔ [5] المجموع: 11/5۔ [6] [حسن] جامع الترمذي، الحج، حدیث: 830، وسندہ حسن امام ترمذی نے اسے حسن اور امام ابن خزیمہ نے حدیث: 2595 میں صحیح کہا ہے۔ [7] صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1553، حدیث: 1573، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1259