کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 63
نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن تک بیٹھا کرتی تھیں۔[1] یعنی عام طور پر چالیس دن نفاس کی حالت میں رہتے ہوئے نماز، روزہ اور جماع سے پرہیز کرتی تھیں۔ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمتہ اللہ علیہم کے نزدیک نفاس کے خون کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ اگر چالیس روز کے بعد بھی خون جاری رہے تو اکثر اہل علم کے نزدیک وہ خون استحاضہ ہے جس میں عورت ہر نماز کے لیے وضو کرتی ہے۔ نفاس کی کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں۔ نفاس اور حیض کے خون کا حکم ایک جیسا ہے، یعنی ان حالات میں نماز، روزہ اور جماع منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام نفاس کی نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔[2] ابن منذر نیشاپوری فرماتے ہیں: نفاس کے خون کی وجہ سے نماز ترک کی جاتی ہے، لہٰذا جب یہ خون بند ہو جائے تو فرض نماز پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے۔[3]
[1] [حسن] سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 312، وھو حدیث حسن، وجامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: 139، وسنن ابن ماجہ، الطھارۃ، حدیث: 648، امام حاکم نے المستدرک: 175/1 میں اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح، جبکہ امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع: 525/2 میں حسن کہا ہے۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 312، وھو حدیث حسن۔ امام حاکم نے المستدرک: 175/1 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [3] الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف: 253/2۔