کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 44
(( اللهمَّ إني أسألُكَ فِعْلَ الخيراتِ وتَرْكَ المنكراتِ وحُبَّ المساكينِ وأن تَغفرَ لي وتَرحمَني وإذا أردتَ فتنةً في قومٍ فتوفَّني غيرَ مفتونٍ وأسألُك حُبَّكَ وحُبَّ من يُحبُّكَ وحُبَّ عملٍ يُقرِبُ إلى حُبِّكَ )) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نیکیوں کے کرنے کا، برائیوں کے چھوڑنے کا، مسکینوں سے محبت اور پیار کرنے کا اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما دے۔ اگر تیرا کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنے کا ارادہ ہو تو مجھے آزمائش سے بچا کر موت دے دینا۔ اور میں تجھ سے تیری محبت اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور میں تجھ سے وہ عمل کرنے کی توفیق مانگتا ہوں جو (مجھے) تیری محبت کے قریب کر دے۔‘‘ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرا یہ خواب حق ہے، تم اسے یاد رکھو اور دوسرے لوگوں کو بھی یہ خواب سناؤ۔‘‘ [1] ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے صبح کی نماز پڑھی، وہ اللہ کی حفاظت اور ذمہ داری میں ہے۔ (دُعا ہے کہ) اللہ تعالیٰ تم سے اپنی حفاظت کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے، اس لیے کہ جس سے وہ یہ مطالبہ کرے گا ، یقینا اسے اپنی گرفت میں لے کر منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا۔‘‘ [2] ٭ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَمَّنِي جبريلُ عليه السلامُ عندَ البيتِ مرتينِ)) ’’جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو دفعہ امامت کرائی ہے۔‘‘ [3] امامتِ جبرئیل کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کا درجہ اتنا بلند، اس کی اہمیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی اعلیٰ و ارفع اور اسے مخصوص ہیئت، مقررہ قاعدوں، متعینہ ضابطوں اور نہایت خشوع و خضوع سے ادا کرنا اس
[1] [حسن] جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3235، وسندہ حسن، ومسند أحمد: 243/5۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ [2] صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 657۔ [3] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 393، وسندہ حسن، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 149۔ اسے امام ترمذی نے اورامام ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمۃ، حدیث: 325 میں، ابن جارود نے المنتقٰی: 150,149 میں، امام حاکم نے المستدرک: 193/1 میں اور ابوبکر ابن العربی نے عارضۃ الأحوذي: 202/1 میں صحیح کہا ہے۔