کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 43
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو رحمتِ الٰہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔‘‘ [1] ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میں نے خواب میں اپنے بابرکت اور بلند قدر پروردگار کو بہترین صورت میں دیکھا، اس نے کہا: اے محمد! میں نے کہا:اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ اللہ نے فرمایا: مقرب فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ اللہ نے تین بار پوچھا۔ میں نے ہر بار یہی جواب دیا۔ پھر میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا کہ اس نے اپنا (مبارک) ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں[2] کی ٹھنڈک اپنی چھاتی کے درمیان محسوس کی۔ پھر میرے لیے ہر چیز ظاہر ہوگئی اور میں نے سب کو پہچان لیا۔[3] پھر فرمایا: اے محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں حاضر ہوں۔ اللہ نے فرمایا: مقرب فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: کفارات (گناہوں کا کفارہ بننے والی نیکیوں) کے بارے میں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: نماز باجماعت کے لیے پیدل چل کر جانا۔ نماز کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا اور مشقت (سردی یا بیماری وغیرہ)کے وقت پورا وضو کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور کس چیز پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: درجات کی بلندی کے بارے میں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: وہ کن چیزوں میں ہے؟ میں نے کہا: لوگوں کو کھانا کھلانے، نرم بات کرنے اور رات کو نماز پڑھنے میں جبکہ لوگ سو رہے ہوں، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اب جوچاہو دعا کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں نے یہ دعا کی:
[1] [حسن] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 945، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 379، وسنن النسائي، السھو، حدیث: 1192، وسندہ حسن، امام ترمذی نے اسے حسن اور حافظ ابن حجر نے، بلوغ المرام، حدیث: 238 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [2] اللہ کا ہاتھ اور انگلیاں: ہاتھ اور انگلیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ ان کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ ہم انھیں مخلوق کے ہاتھوں اور انگلیوں سے تشبیہ نہیں دیتے بلکہ دیگر غیبی امور کی طرح اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر بھی ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ فللّٰہ الحمد علٰی ذٰلک۔ [3] خواب دیکھتے وقت زمین و آسمان کی ہر وہ چیز میں نے دیکھی اور پہچان لی جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھانا چاہی۔ سوال و جواب سے بھی یہی مفہوم اخذ ہو رہا ہے، نیز ایک روایت میں صرف مشرق و مغرب کا ذکر ہے (جنوب و شمال کا نہیں)، لہٰذااس حدیث کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر لوگوں کے جنت اور دوزخ میں داخل ہونے تک کائنات کے ہر زمان و مکان کی ہر چیز اور ہر راز مجھے معلوم ہو گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس خواب کے بعد نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نہیں آنی چاہیے تھی کیونکہ جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی معلوم کرا دی گئی اس کی وحی بھیجنا بے فائدہ ہے مگر ایسا نہیں ہوا اور وحی آتی رہی بلکہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا انتظار فرمایا کرتے تھے۔