کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 39
الصَّلَاةُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ، مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ ’’پانچ نمازیں، ان گناہوں کو جو ان نمازوں کے درمیان ہوئے، مٹا دیتی ہیں اور (اسی طرح) ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، جب کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا گیا ہو۔‘‘ [1] مثلاً: فجر کی نماز کے بعد جب نماز ظہر پڑھیں گے تو دونوں نمازوں کے درمیانی وقفے میں جو گناہ، لغزشیں اور خطائیں ہوچکی ہوں گی، اللہ تعالیٰ انھیں بخش دے گا۔اسی طرح رات اور دن کے تمام صغیرہ گناہ نماز پنجگانہ سے معاف ہو جاتے ہیں، گویا پانچوں نمازوں پر ہمیشگی مسلمانوں کے نامہ ٔ اعمال کو ہر وقت صاف اور سفید رکھتی ہے حتیٰ کہ انسان نماز کی برکت سے آہستہ آہستہ چھوٹے گناہوں سے باز رہتے ہوئے بڑے گناہوں کے تصور ہی سے کانپ اٹھتا ہے۔ اگر عقیدہ، طریقۂ نماز اورنیت درست ہو تو نماز پر ہمیشگی بندے کو گناہوں سے روک دیتی ہے۔ اگر کوئی شخص نماز پڑھنے کے باوجود کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو تو یقینا مذکورہ تین اوصاف میں سے کسی ایک میں ابھی تک خلل موجود ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ’’بھلا مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے باہر نہر ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ بار نہائے، کیا پھر بھی اس کے جسم پرمیل باقی رہے گا؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچوں نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘[2] سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’میں (نے گناہ کیا ہے اور بطور سزا) حد کو پہنچا ہوں، لہٰذا مجھ پرحد قائم کریں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حدکا حال دریافت نہ کیا (یہ نہ پوچھاکہ کون سا گناہ کیا ہے۔) اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس شخص نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو وہ شخص پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! تحقیق میں حد کو پہنچا
[1] صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث: 233۔ [2] صحیح البخاري، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 528، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 667۔