کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 34
بنیادوں پر دلیل کے ساتھ ضعیف قرار دیا جائے) سے استدلال کے سلسلے میں محدثین کرام کے مختلف اقوال ہیں، مثلاً: ٭ اگر عمل قوی دلائل سے ثابت ہے اور ضعیف حدیث میں صرف اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے تو لوگوں کو اس عمل کی ترغیب دینے کے لیے اس ضعیف حدیث کو بیان کرنا جائز ہے۔ ٭ کسی مسئلے کے بارے میں قرآن مجید اور مقبول احادیث مکمل طور پر خاموش ہوں، صرف بعض ضعیف روایات سے کچھ رہنمائی ملتی ہو تو اس مسئلے میں کسی امام کے قول پر عمل کرنے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ اس ضعیف حدیث پر عمل کر لیا جائے۔ مگر دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ صرف وہی ضعیف حدیث بیان کی جائے گی جس کا ضعف معمولی ہو، نیز اس کے ضعیف ہونے کی صراحت کی جائے گی۔ ٭ تیسری رائے یہ ہے کہ اگر ضعیف حدیث کی تائید میں دیگر قوی دلائل موجود ہوں تو پھر اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٭ چوتھا قول یہ ہے کہ ضعیف حدیث کے بیان کا دروازہ نہ کھولا جائے کیونکہ: ٭ کسی عمل کی جس فضیلت کو بیان کیا جائے گا، سننے والا اس فضیلت کی سچائی پر ایمان لائے گا (تبھی اس عمل کو انجام دے گا) اسی بات کا نام عقیدہ ہے اور عقائد میں ضعیف حدیث سے استدلال بالاتفاق ناجائز ہے۔ ٭ تقریباً ہر باطل فرقہ، کتاب و سنت کے فہم میں صحابہ و تابعین کے مجموعی فہم و عمل سے دور ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے خود ساختہ امتیازی مسائل کا دفاع نہیں کر سکتا۔ اب اگر ضعیف احادیث کے بیان کا دروازہ کھول دیا گیا تو وہ یہ جھوٹا دعویٰ کرے گا کہ ’’ہر چند فلاں حدیث ضعیف ہے مگر اس کی تائید فلاں آیت کریمہ یا مقبول حدیث سے ہو رہی ہے، لہٰذایہ حدیث ضعف کے باوجود قابل استدلال ہے۔‘‘ حالانکہ فہم سلف کے مطابق اس فلاں آیت یا مقبول حدیث سے اس ضعیف حدیث کی قطعاً تائید نہیں ہوتی۔ ٭ آج کل عملاً جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ مفاد پرست علمائےسوء صرف فضائل ہی نہیں بلکہ عقائد و اعمال کو بھی مردود بلکہ موضوع روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو یہ تأثر دیتے ہیں کہ’’اول تو یہ احادیث بالکل صحیح ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف بھی ہوئی، تب بھی کوئی حرج نہیں