کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 336
اسی طرح ہر نماز کے آخری تشہد میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنا بھی اس سے تحفظ کا باعث ہے۔[1]
بدشگونی سے اظہارِ براء ت کی دعا
اللهمَّ لا طيرَ إلا طيرُك ولا خيرَ إلا خيرُكَ ولا إلهَ غيرُكَ
’’اے اللہ! نہیں ہے کوئی بدشگونی، مگر تیری ہی بدشگونی (تیرے ہی حکم سے) اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری ہی بھلائی (تیری ہی مشیّت سے) اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘[2]
اپنی نظر لگ جانے کا اندیشہ ہوتو کیا کہے؟:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی یا اپنے ہاں یا اپنے مال میں خوش کن چیز دیکھے تو اسے برکت کی دعا کرنی چاہیے کیونکہ نظر (لگ جانا) حق ہے۔‘‘ [3]
ایسے شخص کے لیے دعا جسے برا بھلا کہا ہو:
بشری تقاضے کے تحت اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر ناراض ہو کر اس کے متعلق نازیبا الفاظ کہتے تو پھر اس کے لیے یہ دعا کرتے:
اللَّهُمَّ فأيُّما مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ، فاجْعَلْ ذلكَ له قُرْبَةً إلَيْكَ يَومَ القِيامَةِ
’’اے اللہ! جس کسی مومن کو میں نے برا بھلا کہا، پس تواسے اس (مومن) کے لیے قیامت کے دن اپنی طرف قربت کا ذریعہ بنا دے۔‘‘ [4]
[1] صحیح مسلم، حدیث: 588۔
[2] مسند أحمد: 220/2، وسلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: 54/3، اور سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، حدیث: 726، وعمل الیوم واللیۃ لابن السني، حدیث: 290، میں ہے کہ بدشگونی (جو ناجائز ہے) کے مقابلے میں فال (نیک فالی) ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، اسی لیے ایک موقع پر ایک شخص سے آپ نے اچھا کلمہ سنا تو آ پ کو اچھا لگا اور فرمایا: ’’تیری فال ہم نے تیرے ہی منہ سے لی ہے۔‘‘
[3] سنن ابن ماجہ، حدیث: 3509,3508، وصحیح الجامع الصغیر، حدیث: 4020۔
[4] صحیح البخاري، حدیث: 6361، وصحیح مسلم، حدیث: 261، صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: [فَاجْعَلْھَا لَہٗ زَکَاۃً وَّرَحْمَۃً] ’’اسے اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت کا ذریعہ بنا دے۔‘‘