کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 33
ہے یا صحیح نہیں تو یہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ہے۔‘‘[1] متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت ہے کہ وہ حدیث بیان کرنے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے۔ حافظ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا مبادا حدیث بیان کرنے میں کوئی غلطی یا کمی بیشی ہو جائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: ’’جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے، اس کا ٹھکانا آگ ہے۔‘‘ کے مصداق قرار پائیں۔‘‘ [2] امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص حدیث کے ضعیف راوی کا ضعف جاننے کے باوجود ضعف بیان نہیں کرتا وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہے اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض باتوں پر عمل کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا ان میں سے اکثر جھوٹ ہوں اور ان کی کوئی اصل ہی نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ پھر بہت سے لوگ علم ہوجانے کے باوجود جانے بوجھےضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث محض اس لیے بیان کرتے ہیں کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ’’یہ بہت احادیث جانتا اور اس نے بہت کتابیں لکھی ہیں۔‘‘ جو شخص علم کے معاملے میں یہ روش اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں، اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔‘‘ [3] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے کسی عمل کا واجب یا مستحب ہونا ثابت ہو سکتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے، اس نے اجماع کی مخالفت کی۔‘‘ [4] جمال الدین قاسمی فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن معین، ابن حزم اور ابوبکر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک فضائل اعمال میں بھی صرف مقبول احادیث ہی قابل استدلال ہیں۔[5] شیخ احمد شاکر، شیخ البانی اور شیخ محمدمحيالدین عبدالحمید رحمہم اللہ اور دیگر محققین کا بھی یہی موقف ہے۔ وضاحت: یاد رہے کہ ضعیف حدیث (جسے مسلکی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول حدیث کی روشنی میں خالص فنی
[1] أطراف الغرائب والأفراد للدارقطني: 22/1، وسندہ صحیح [2] الکامل لابن عدي: 80/1۔ [3] صحیح مسلم، المقدمۃ، باب بیان أن الإسناد من الدّین۔ [4] التوسل والوسیلۃ، ص: 95۔ [5] قواعد التحدیث، ص: 113۔