کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 31
(( مَن أَطاعَنِي دَخَلَ الجَنَّةَ، وَمَن عَصانِي فقَدْ أَبى)) ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا۔‘‘ [1] سیدنا عر باض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور مؤثر نصیحت فرمائی۔ وعظ سن کر ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل دہل گئے۔ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ وعظ تو ایسا ہے جیسے کسی رخصت کرنے والے کا ہوتا ہے، اس لیے ہمیں خاص وصیت کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور (اپنے امیر کی جائز بات) سننا اور ماننا چاہے (تمھارا امیر) حبشی غلام ہی ہو۔ میرے بعد جو تم میں سے زندہ رہے گا، وہ سخت اختلاف دیکھے گا۔ اس وقت تم میری سنت اورہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا طریقہ لازم پکڑنا، اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہنا اور (دین میں) نئے نئے کاموں (اور طور طریقوں) سے بچنا کیونکہ (دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ [2] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ کوئی بدعت حسنہ نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’ہر بدعت گمراہی ہے، چاہے لوگ اسے اچھا سمجھیں۔‘‘[3] حدیث کے معاملے میں چھان بین اور احتیاط: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیےبیان کریں جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ألا إنِّي أُوتيتُ الكِتابَ ومِثلَه معه)) ’’یاد رکھو! مجھے قرآن مجید اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز (حدیث) دی گئی ہے۔‘‘[5]
[1] صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7280۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، السنۃ، حدیث: 4607، وسندہ صحیح، وجامع الترمذي، العلم، حدیث: 2676۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے [3] السنۃ لمحمد بن نصرالمروزي، ص: 82، وسندہ صحیح۔ [4] النحل 44:16۔ [5] [صحیح] سنن أبي داود، السنۃ، حدیث: 4604، وسندہ صحیح، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 97 میں اسے صحیح کہا ہے۔