کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 30
کتاب و سنت کی اتباع کا حکم ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ ’’(اے مسلمانو!) آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا ہے۔‘‘ [1] یہ آیت9 ذوالحجہ 10 ہجری کو میدان عرفات میں نازل ہوئی۔ اس کے نازل ہونے کے تقریباً تین ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اجمل و اکمل دین امت کو سونپ کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور امت کو یہ وصیت فرما گئے: ((تركتُ فيكم أَمْرَيْنِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما: كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبيِّهِ)) ’’میں تمھارے اندر دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ٔ اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت۔‘‘[2] معلوم ہوا کہ اسلام، کتاب و سنت میں محدود ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ و فتویٰ صرف وہی صحیح اور قابل عمل ہے جو قرآن و حدیث سے مدلل ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((كُلُّ أُمَّتي يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلّا مَن أَبى)) ’’میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! انکار کرنے والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] المآئدۃ 3:5۔ [2] [حسن] السنن الکبرٰی للبیھقي، آداب القاضي، حدیث: 20337، والموطأ للإمام مالک، القدر، حدیث: 1708۔