کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 286
افسوس کہ یہ سنت بھی بعض علاقوں میں مٹتی جارہی ہے کیونکہ لوگوں نے اس کا متبادل ڈھونڈ رکھا ہے، یعنی وہی ’’کلمۂ شہادت‘‘ والا نعرہ أشهد أن لا إله إلا اللهُ جس کا اس موقع پر پڑھنا قطعاً ثابت نہیں۔ ٭ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ میرے لیے لحد بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا گیا تھا۔[1] ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اونٹ کی کوہان جیسی تھی۔[2] ٭ پھر قبر پر مٹی ڈال کر سب لوگ میت کے لیے بخشش اور ثابت قدمی کی دعا مانگیں۔[3] تدفین کے بعد کی دعا: اللهُمَّ اغفرلہ ،اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ ’’اے اللہ! اسے معاف فرما، اے اللہ اسے ثابت قدم رکھ۔‘‘ [4] تنبیہ: نماز جنازہ کے فوراً بعد میت کی چارپائی کے پاس جمع ہو کر اور اسی طرح تدفین کے بعد چالیس یا ستر قدموں کے فاصلے پر پہنچ کر میت کے لیے دعائے مغفرت کا خصوصی اہتمام والتزام کرنا سراسر بدعت ہے۔ قبروں کو پختہ بنانے کی ممانعت: قبروں کو اونچا کرنا، پختہ بنانا، ان پر گنبد اور قبے بنانا حرام ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پختہ قبریں اور ان پر عمارت (گنبد وغیرہ) بنانے سے منع کیا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر بیٹھنے اوران کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے (بھی) منع فرمایا ہے۔ (چاہے کوئی شخص مجاور بن کر بیٹھے یا چلہ کشی کے لیے، سب ناجائز ہے۔)[5] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر (کتبہ لگانے)لکھنے سے بھی منع فرمایا ہے۔[6] سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں ہر تصویر مٹا دوں اور ہر اونچی قبر برابر کر دوں۔[7]
[1] صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 966۔ [2] صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1390۔ [3] [حسن] سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3221، وسندہ حسن، امام حاکم اور حافظ ذہبی نے المستدرک: 370/1 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [4] سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3221۔ [5] صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 970، 972۔ [6] [صحیح] سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3226، وھو حدیث صحیح، امام حاکم اور امام ذہبی نے المستدرک: 380/1 میں اسے صحیح کہا ہے۔ وأصلہ عند مسلم (: 970) [7] صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 969۔