کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 284
کے ساتھ تخصیص کی صریح دلیل نہ ہونے کی بنا پر جائز ہے لیکن چونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر سلف کا عام معمول یہ نہیں تھا، لہٰذا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عام معمول ہی کو اپنانا افضل و بہتر ہے۔[1]
قبر پر نماز جنازہ:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیاہ رنگ کی ایک خاتون مسجد (نبوی) میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ وہ نظر نہ آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟ مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قبر بتائی۔ پھر آپ نے قبر پر نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا: ’’یہ قبریں تاریکی اور ظلمت سے بھری ہوتی ہیں۔ میری نماز کے سبب اللہ تعالیٰ ان کو روشن کر دیتا ہے۔‘‘ [2]
[1] تفصیل کے لیے دیکھیے أحکام الجنائز للألباني، ص: 115 اور فتاویٰ الدین الخالص: 172/7۔
[2] صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1337، وصحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 956۔