کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 281
گھر دے جو اس کے گھر سے بہتر ہو اور گھر والے جو اس کے گھر والوں سے زیادہ بہتر ہوں، اے اللہ! ان لوگوں کو بخش دے جو ہمارے پیش رو، ہمارے میر ساماں ہیں اور (انھیں) جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گزر گئے۔‘‘[1] تیسری دعا اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا واجرا ’’اے اللہ! اسے ہمارے لیے میر منزل، پیش رو اور (باعثِ) اجر بنادے۔‘‘[2] جنازے کے مسائل ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مومن ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جاتا ہے اور جنازہ ہونے اور تدفین سے فارغ ہونے تک ساتھ رہتا ہے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے۔ ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو (صرف) جنازہ پڑھ کر واپس آ جاتا ہے تو اس کے لیے ایک قیراط ہے۔‘‘ [3] ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میت کو جلد دفن کرو۔ اگر وہ نیک ہے تو جس طرف تم اسے بھیج رہے ہو، وہ اس کے لیے فائدہ مند ہے اور اگر وہ برا ہے تو وہ بوجھ ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتار دو گے۔‘‘[4] ٭ سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ اور دعائیں آہستہ آواز میں پڑھی جائیں۔[5] ٭ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جنازے میں (تعلیماً)فاتحہ بلند آواز سے پڑھی۔[6] تعلیم کے علاوہ مطلقاً جائز ہونے کی بنا پر بھی بلند آواز سے جنازہ پڑھایا جا سکتا ہے، چنانچہ سیدنا عوف بن
[1] المغني لابن قدامۃ: 369/2۔ [2] شرح السنۃ للبغوي: 357/5، والمصنف لعبدالرزاق: 529/3، امام بخاری نے اسے معلق ذکر کیا ہے، دیکھیے: صحیح البخاري، الجنائز، قبل الحدیث: 1335۔ [3] صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 47،1325، وصحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 945۔ [4] صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1315، وصحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 944۔ [5] [صحیح] سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1991، وھو حدیث صحیح، حافظ ابن حجر نے فتح الباري: 204/3 میں اسے صحیح کہا ہے۔ المنتقٰی لابن الجارود: 540، وسندہ صحیح۔ [6] [صحیح] سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1990، وسندہ صحیح، امام حاکم نے المستدرک: 386,358/1 میں اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے، نیز اس کی اصل صحیح بخاری میں ہے، دیکھیے حدیث: 1335۔