کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 28
کی صراحت ہے۔ مسعود صاحب اس سند کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’سند میں اَلسُّدِّي کَذَّاب ہے۔‘‘ [1] حالانکہ اسماعیل بن عبدالرحمن السدی صحیح مسلم کا راوی اور ’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔[2] اس پر امام ابو حاتم وغیرہ کی معمولی جرح مردود ہے۔ اسے کسی محدث نے کذاب نہیں کہا، البتہ جوزجانی (ناصبی) نے محمد بن مروان السدی کو ’’کذاب شتام‘‘ یعنی جھوٹا اور گالی گلوچ کرنے والا لکھا ہے جو غلطی سے اسماعیل مذکور کی طرف منسوب ہو گیا ہے۔ ابن عدی (جو مختلف راویوں کی بابت جوزجانی کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں) نے اسماعیل مذکور کے ترجمہ میں جوزجانی کا یہ قول ذکر نہیں کیا۔ یہ ہے مسعود صاحب کا مبلغِ علم کہ وہ موضوع کو صحیح اور صحیح کو موضوع گردانتے ہیں! اور پھر وہ اپنی زندگی میں عام مسلمانوں کی تکفیر پر بھی کمربستہ رہے۔ ٭ضعیف روایات: ان کتب میں بے شمار ایسی روایات موجود ہیں جن کے ضعیف و مردود ہونے پر اتفاق ہے، مثلاً: یزید بن ابی زیاد کی ترک رفع یدین والی روایت۔ دیکھیے ’’نبوی نماز (سندھی)، ص: 355‘‘ ’’د پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مونحٔ، ص: 294‘‘ اور ’’نماز مدلل‘‘ ص: 131,130 وغیرہ۔ ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی ضعیف روایات موجود ہیں: ’’صفۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، ص: 135‘‘(دیکھیے القول المقبول في تخریج صلاۃ الرسول، ص: 440، حدیث: 382) ’’صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ازخالد گرجاکھی، ص: 343,342 اور ’’صلاۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ص: 214 (دیکھیے القول المقبول، حدیث: 310) وغیرہ۔ ٭تناقضات: علی محمد حقانی دیوبندی اپنی ایک پسندیدہ روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یزید بن ابی زیاد کوفی پر بعض محدثین[3] نے کلام کیا ہے مگر وہ ثقہ ہے۔‘‘ [4] اور جب یہی یزید بن ابی زیاد ’’مخالفین‘‘ کی حدیث (مسح علی الجوربین) میں آ جاتا ہے تو ’’حقانی‘‘ صاحب فرماتے ہیں: ’’زیلعی فرماتے ہیں کہ[5] اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘ [6] کیا انصاف اسی کا نام ہے؟
[1] تاریخ إسلام و المسلمین مطول: 95/1، حاشیہ: 8، طبع دوم [2] الکاشف للذہبي: 79/1۔ [3] یزید بن أبي زیاد کوفی تي توژی جو بعض محدثینن کلام کیو آھي مگرا ھو ثقۃ آہي۔ [4] نبوی نماز مدلل، سنتدی پاگو پھریوں، ص: 355۔ [5] زیلعي فرمائیندو آھی تہ ھن جی سندمٖٖ یزید بن ابي زیاد آھي اھو ضعیف آھي۔ [6] نبوی نماز، ص: 165۔