کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 27
1 سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک موضوع روایت کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔ متعدد مصنفین نے یہ روایت بطور استدلال بیان کی ہے، مثلاً: ابو یوسف درویش نے ’’دپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مونحٔ‘‘(پشتو، ص: 293) میں، فیض احمد ککروی نے ’’نماز مدلل‘‘ (ص: 131) میں اور صوفی عبدالحمید سواتی نے ’’نماز مسنون کلاں‘‘(ص: 343) میں۔ درویش صاحب نے اس روایت کے مرکزی راوی محمد بن جابر کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے اور خود اپنی اسی کتاب میں ص: 52 پر لکھا ہے: [1] ’’اس حدیث میں مرکزی راوی محمد بن جابر ہے اور اسے یہ سب ضعیف کہتے ہیں۔‘‘ 2 مسعود احمد بی ایس سی نے اپنی کتاب ’’صلاۃ المسلمین‘‘ کے بارے میں یہ بلند و بالا دعویٰ کر رکھا ہے کہ اس کتاب میں کوئی ضعیف حدیث نہیں لی گئی۔ حالانکہ اسی کتاب کے صفحہ: 305 تا صفحہ: 307 پر مصنف عبدالرزاق: 116/3 سے ’’معمر عن عمروعن الحسن‘‘کی سند سے ایک اثر نقل کر کے لکھا ہے: ’’سندہ صحیح‘‘ یعنی اس کی سند صحیح ہے۔ عمرو سے مراد، ابن عبید ہے۔ (دیکھیے: مصنف عبدالرزاق: 83/11، حدیث: 19985)۔ تہذیب الکمال وغیرہ میں یہ صراحت ہے کہ امام حسن بصری کا شاگرد، عمرو بن عبیدمعتزلی تھا۔ اس شخص کے بارے میں امام ایوب سختیانی وغیرہ نے کہا: ((يَكذِبُ)) یعنی ’’جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ امام حمید الطویل نے کہا: (( كان يكذب علي الحسن )) ’’وہ حسن (بصری) پر جھوٹ بولتا تھا۔‘‘ بلکہ امام یحییٰ بن معین نے یہ گواہی دی ہے: ((رجل سوء من الدهرية)) ’’عمرو بن عبید گندا آدمی تھا (اور) دہریوں میں سے تھا۔‘‘[2] ایسے دہریہ کذاب کی روایت کو ’سندہ صحیح‘ کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔ إنّا للَّهِ وإنّا إليهِ راجعونَ 3 مستدرک حاکم (563,562/2) میں صحیح مسلم کے ایک راوی (إسماعیل بن عبدالرحمٰن بن أبي کریمۃ السُّدّي) کی ایک روایت ہے جسے امام حاکم اور حافظ ذہبی دونوں صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیتے ہیں۔ مستدرک کی اسی جلد میں (ص: 260-258 پر) السدی کےساتھ اسماعیل بن عبدالرحمن (اس کے نام)
[1] پہ ہغہ حدیث محمد بن جابر راوي دے، او دہ تہ دوی ضعیف وایي۔ [2] تھذیب الکمال: 276/14۔