کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 265
(نے تہذیب الاسماء و اللغات میں) اور ابن صلاح نے اسے صحیح کہا ہے۔
نوٹ: نماز تسبیح میں تسبیحات، تشہد میں التحیات سے پہلے پڑھیں۔ بخلاف دوسرے ارکان کے۔ نماز تسبیح کے بعد پڑھی جانے والی دعا کی سند سخت ضعیف ہے۔ اس کے راوی عبدالقدوس بن حبیب کو حافظ ہیثمی نے متروک اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کذاب کہا ہے۔
وضاحت: اہل دنیا کو سات دنوں کی مدت معلوم ہے۔ مسلمانوں کے ہاں جمعہ سے، یہودیوں کے ہاں ہفتہ سے اور عیسائیوں کے ہاں اتوار کے دن سے اس مدت کا آغاز ہوتا ہے۔ جس طرح ’’ہفتہ‘‘ ایک خاص دن کا نام ہے اور ان سات دنوں کی مدت کو بھی ہفتہ کہتے ہیں، اسی طرح’’جمعہ‘‘ بھی ایک خاص دن کا نام ہے اور ان سات دنوں کی مدت کو بھی’’جمعہ‘‘ کہتے ہیں۔ عربی میں اس مدت کو ’’اسبوع‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس تفصیل کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث کا منشا یہ نہیں کہ نماز تسبیح ہر جمعے کے دن پڑھو بلکہ مقصد یہ ہے کہ پورے سات دنوں کی مدت میں کسی وقت بھی پڑھ لو، چنانچہ صرف جمعے کا دن نماز تسبیح کے لیے خاص کرنا صحیح نہیں۔ یاد رہے کہ اس حدیث شریف میں نماز تسبیح باجماعت ادا کرنے کا ذکر نہیں ہے، صرف انفرادی عمل کے طور پر نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا جان کو اس کی ترغیب دی ہے، لہٰذاجو مسلمان نماز تسبیح ادا کرنا چاہے، اسے چاہیے کہ پہلے نماز تسبیح کا طریقہ سیکھے، پھر اسے تنہائی میں اکیلا پڑھے۔ اور یہ رویہ بھی انتہائی مہلک ہے کہ بندہ فرض نمازوں پر تو توجہ نہ دے مگر نماز تسبیح (باجماعت) ادا کرنے کے لیے ہر وقت بے تاب رہے، لہٰذافرض نمازوں کے تارک کو پہلے سچی توبہ کرنی چاہیے اور فرض نمازوں کی مکمل حفاظت کرنی چاہیے، پھر وہ نماز تسبیح پڑھے گا تو اسے یقینا فائدہ ہو گا۔ إن شاء اللّٰہ العزیز۔