کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 256
الغيثَ واجعل ما أنزلتَهُ علينا قوَّةً لنا وبلاغًا إلى حينٍ ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ بہت رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ روزجزا کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں۔ جو چاہتا ہے، وہ کرتا ہے۔ اے اللہ! تو (سچا) معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ تو ہی غنی اور بے پروا ہے اور ہم (تیرے) محتاج اور فقیر (بندے) ہیں۔ ہم پر بارش برسا اور جو بارش تو نازل فرمائے، اسے ہمارے لیے ایک مدت تک قوت اور (مقاصد تک) پہنچنے کا ذریعہ بنا۔‘‘[1] اس سے معلوم ہوا کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پاکباز صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنا کارساز اور داتا صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے تھے۔ وہ اسی کے در کے محتاج، اسی سے ڈرنے والے اور براہ راست اسی سے دعائیں مانگنے والے تھے، اس لیے ہمیشہ اللہ ہی سے مانگتے رہے۔ قرآن مجید نے بھی اسی عقیدے کی تعلیم دی ہے۔¢ لہٰذاہم گناہ گاروں کو بھی چاہیے کہ کتاب و سنت کے مطابق صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا کارساز اور داتا مانیں اور براہ راست اسی سے دعائیں کریں۔ یہی نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور ان کی اطاعت کا تقاضا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقا کے علاوہ کسی دعا میں اپنے دونوں ہاتھ (بہت زیادہ) نہیں اٹھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور انھیں اتنا دراز کیا کہ آپ کی بغلیں دکھائی دیں۔[2] وضاحت: اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بلند ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء میں اٹھاتےتھے، اتنے کسی اور دعا میں نہیں اٹھاتے تھے۔[3] ہاتھوں کو سر سے اونچا نہ لے جائیں۔[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف تھی۔[5]
[1] [حسن] سنن أبي داود، صلاۃ الاستسقاء، حدیث: 1173، وسندہ حسن، امام حاکم اور حافظ ذہبی نے المستدرک: 328/1 میں، ابن حبان نے الموارد، حدیث: 604 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [2] صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1031، وصحیح مسلم، صلاۃ الاستسقاء، حدیث: 896,895۔ [3] تفصیل کے لیے دیکھیے: المنہاج في شرح صحیح مسلم بن الحجاج للنووي ۔ [4] [صحیح] سنن أبي داود، صلاۃ الاستسقاء، حدیث: 1168، وھو صحیح، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 602,601 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [5] صحیح مسلم، صلاۃ الاستسقاء، حدیث: 896۔