کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 255
نماز استسقاء
اگر قحط سالی ہو جائے، مینہ نہ برسے تو اس وقت مسلمانوں کو چاہیے کہ ایک دن مقرر کرکے سورج نکلتے ہی پرانے کپڑے پہن کر عاجزی اور زاری کرتے ہوئے آبادی سے باہر کسی کھلی جگہ پہنچ جائیں اور وہاں منبر بھی رکھا جائے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
خرج رسولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم مُتبذِلًا متواضعًا مُتضرِّعًا حتى أتى المُصلَّى
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرانے کپڑے پہن کر، خشوع اور آہستگی سے چلتے ہوئے، عاجزی اور زاری کرتے ہوئے نکلے اور نماز (استسقاء)کی جگہ پہنچے۔‘‘[1]
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قحط سالی کی شکایت کی تو آپ نے عید گاہ میں منبر رکھنے کا حکم دیا۔ جب سورج کا کنارا ظاہر ہوا تو آپ نکلے اور منبر پر بیٹھے۔ اللہ کی بڑائی اور حمد بیان کی۔ پھر فرمایا: ’’تم نے اپنے علاقوں میں قحط سالی اور بروقت بارش نہ ہونے کی شکایت کی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھیں حکم ہے کہ تم اسے پکارو، اس نے تمھاری دعا قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ پھر فرمایا:
الحمدُ للَّهِ ربِّ العالمينَ الرَّحمنِ الرَّحيمِ مالِكِ يومِ الدِّينِ لا إلَهَ إلّا اللَّهُ يفعلُ ما يريدُ اللَّهمَّ أنتَ اللَّهُ لا إلَهَ إلّا أنتَ الغنيُّ ونحنُ الفقراءُ أنزل علينا
[1] [حسن] سنن أبي داود، صلاۃ الاستسقاء، حدیث: 1165، وسندہ حسن، وجامع الترمذي، الجمعۃ، حدیث: 558، امام ترمذی نے، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1405و1408و1419 میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 603 میں، امام حاکم اور امام ذہبی نے المستدرک: 326/1 میں، اور امام نووی نے المجموع: 67/5 میں اسے صحیح کہا ہے۔