کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 251
سنن ابو داوداور سنن ابن ما جہ میں ہے کہ ایک شخص نے مروان کے اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: تم نے عید کے روز منبر لا کر سنت کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ عید کے دن اسے نہیں لایا جاتا تھا۔ اس کی اصل صحیح مسلم (العیدین، حدیث: 989) میں ہے۔[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بچیاں (دف بجا کر اچھے) اشعار گا رہی تھیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں منع کیا۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوبکر! انھیں کچھ نہ کہو، بے شک آج عید کا دن ہے۔ بلاشبہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔‘‘ [2] وضاحت: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر پڑھنے والی چھوٹی بچیاں ہوں، آلات موسیقی میں سے صرف دف ہو، اشعار خلاف شریعت نہ ہوں اور عید کا موقع ہو تو ایسے اشعار پڑھنے یا سننے میں کوئی حرج نہیں لیکن جلبِ منفعت کے خوگر گویوں نے اس حدیث شریف کی آڑ لے کر اپنا الو سیدھا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، چنانچہ انھوں نے من مانے طور پر نہایت ڈھٹائی سے چھوٹی بچیوں کی بجائے ہر عمر کی پیشہ ور گلوکارہ کے لیے جوازگھڑ لیا۔ دف سے جملہ آلات موسیقی جائز قرار دیے۔ اچھے اور بلندپایہ اشعار سے لچر گانوں کا جواز پیدا کر لیا اور عید کے دن سے’’نام نہاد جشن و تہوار‘‘ ڈھونڈ نکالے اور یہ نہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ خالق و مالک ہے، اس نے اپنے بندوں کے لیے جواز کی جو حد چاہی، مقرر کر دی اور اس سے تجاوز کرنا حرام قرار دے دیا ہے۔ عید الاضحی کے دن نماز عید پڑھ کر قربانی کرنی چاہیے۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز کے بعد قربانی کی (اس کی قربانی بھی ہو گئی اور) اس نے مسلمانوں کا طریقہ بھی اپنا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی، اس کی قربانی نہیں ہو گی، وہ محض گوشت کی ایک بکری ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے ذبح کی ہے۔‘‘ [3] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کی، وہ نماز کے بعد دوسری قربانی کرے۔‘‘ [4]
[1] صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 49، وسنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 1140، وسنن ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، حدیث: 1275۔ [2] صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 952۔ [3] صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 965، وصحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 1961۔ [4] صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 985، وصحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 1960۔