کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 249
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ یوں تکبیرات کہتے: اللهُ أكبرُ، اللهُ أكبرُ ، اللهُ أكبرُ كبيرًا [1] مشہور تابعی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ عرفات کے دن نماز کے بعد قبلہ رخ حالت ہی میں ’’ اللَّهُ أكبرُ اللَّهُ أكبرُ لا إلهَ إلّا اللَّهُ واللَّهُ أكبرُ اللَّهُ أكبرُ وللَّهِ الحمدُ ‘‘ پڑھتے تھے۔[2] نماز عید کا طریقہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے دن عید گاہ جاتے، سب سے پہلے نماز پڑھتے، پھر خطبہ دیتے اور لوگ صفوں میں بیٹھے رہتے۔ خطبے میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے اور (اگر کہیں لشکر بھیجنا ہوتا تو اس کی تیاری کا) حکم دیتے ،پھر واپس تشریف لے آتے۔[3] وضو کر کے قبلے کی طرف منہ کریں اور اللهُ أكبرُ کہتے ہوئے رفع الیدین کریں۔[4] پھر سینے پر ہاتھ باندھ کر دعائے استفتاح پڑھیں۔ پھر دعائے استفتاح ختم کر کے قراء ت سے پہلے (ٹھہر ٹھہر کر) سات تکبیریں کہیں۔[5] تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی صریح دلیل منقول نہیں۔ امام ابن حزم اس کے متعلق لکھتے ہیں: ((لم يصح قط ان رسول الله رفع فيه يديه )) [6] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ آپ نے ان تکبیروں میں رفع الیدین کیا ہے۔‘‘ محقق عصر شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ مسنون نہیں ہے۔[7] تاہم تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کے بارے محدثین کرام، مثلاً: امام ابن المنذر اور امام بیہقی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے: ((ويرفعُها في كلِّ ركعةٍ وتكبيرةٍ كبَّرها قبلَ الركوعِ)) ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت اور تکبیر کے ساتھ، جو رکوع سے پہلے ہے، دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘ سلف صالحین میں سے کوئی بھی ان محدثین کرام کا مخالف نہیں اور یہ استدلال قوی ہے۔ اس بارے میں ائمہ کے اقوال بھی ملتے ہیں جیسا کہ
[1] [صحیح] السنن الکبرٰی للبیھقي، صلاۃ العیدین: 316/3، حدیث: 6282، وسندہ صحیح، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس بارے میں صحیح ترین قول سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کا ہے۔ فتح الباري: 462/2۔ [2] مصنف ابن أبي شیبۃ: 167/2، حدیث: 5649، وسندہ صحیح، اس صحیح اثر سے معلوم ہوا کہ تکبیر کے مذکورہ الفاظ پڑھنا بھی صحیح ہے۔ [3] صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 956، وصحیح مسلم، صلاۃ العیدین، حدیث: 889۔ [4] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738۔ [5] [حسن] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 1151، وسندہ حسن، امام احمد اور علی بن مدینی رحمہم اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ [6] المحلّٰی: 84,83/5۔ [7] إرواء الغلیل: 114/3۔