کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 244
کی جگہ پر بیٹھے۔ نافع رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کیا صرف جمعہ میں منع ہے؟ فرمانے لگے: جمعہ میں بھی اور اس کے علاوہ بھی۔[1] ٭ سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے بشر بن مروان کو جمعے کے دن منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو ہلاک کرے! نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبے میں صرف ایک ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔[2] ٭ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور آپ کے ہاتھ میں عصا یا کمان تھی۔[3] ٭ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیتے اور ان کے درمیان بیٹھتے تھے۔[4] ظہر احتیاطی بدعت ہے: بعض لوگ نماز جمعہ کے علاوہ ’’ظہر احتیاطی‘‘ پڑھتے اور اس کا فتویٰ بھی دیتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات اور آپ کے بے شمار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جمعے کے بعد نماز ظہر پڑھنا کہیں ثابت نہیں۔ ہم حیران ہیں کہ نماز جمعہ ادا کر لینے کے بعد (احتیاطًا) ظہر کے فرض پڑھنے والے اور اس کا حکم دینے والے اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔ معاذاللہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے بعد ظہر پڑھنا اور لوگوں کو بتانا بھول گئے تھے جو بعد میں آنے والے لوگوں نے ایجاد کر کے تکمیل دین کی ہے؟ احتیاطی ظہر پڑھنے والو! اللہ سے ڈرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو۔ محض جمعے کے دن روزہ رکھنا: نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعے کا دن روزے کے لیے اور جمعے کی شب (جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات کو) عبادت کے لیے مخصوص کرنے سے منع فرمایا۔[5] جمعہ کی اذان: سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعے کی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام خطبے کے لیے منبر پر بیٹھتا تھا۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور لوگ زیادہ ہو گئے تو ایک مقام زوراء پر ایک اور اذان دی جانے لگی۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زوراء مدینے کے بازار میں ایک جگہ ہے۔[6] مسجد کے اندر امام کے خطبے سے پہلے صرف ایک اذان ہے۔ عام طور پر مساجد میں خطبے کی اذان سے پہلے
[1] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 911۔ [2] صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 874۔ [3] [حسن] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 1096، وسندہ حسن، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1778 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [4] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 928۔ [5] صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1144۔ [6] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 912۔