کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 243
مالک میں ’’الساعۃ الأولٰی‘‘ کے الفاظ سے اس توجیہ کی تائید ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعے کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جو مسلمان اس گھڑی میں نماز کی حالت میں کھڑا اللہ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی ضرور عطا فرماتا ہے۔‘‘ [1] نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعے کے دن قبولیت کی گھڑی امام کے (منبر پر)بیٹھنے سے لے کر نماز کے خاتمے تک کے درمیان ہے۔‘‘ [2] ایک قول کے مطابق قبولیت کی گھڑی نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان آتی ہے۔ خطبۂ جمعہ کے مسائل: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے، ان کے درمیان بیٹھتے، خطبے میں قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی اوسط انداز کی اور خطبہ بھی اوسط انداز کا ہوتا تھا۔[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ دانائی کی علامت ہے، لہٰذا نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر کرو۔‘‘ [5] ٭ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبۂ جمعہ میں سورۂ قٓ کی تلاوت فرماتے تھے۔[6] ٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جمعے کے خطبے میں جب تو اپنے پاس بیٹھنے والے سے (ازراہ نصیحت)کہے: ’’چپ رہو۔‘‘ تو بلاشبہ تو نے بھی لغو (کام) کیا۔‘‘ [7] اس سے ثابت ہوا کہ دوران خطبہ میں (سامعین کو آپس میں)کسی قسم کی بات کرنی جائز نہیں۔ بالکل خاموشی سے خطبہ سننا چاہیے،البتہ خطیب اور سامع ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مخاطب ہو سکتے ہیں۔[8] ٭ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرما یا ہے کہ آدمی اپنے بھائی کو اٹھا کر اس
[1] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 935، وصحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 852۔ [2] صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 853۔ [3] صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 862۔ [4] صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 866۔ [5] صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 869۔ [6] صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 873,872۔ [7] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 934، وصحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 851۔ [8] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 932، وصحیح مسلم، صلاۃ الاستسقاء، حدیث: 897۔