کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 238
پھر وہ غافل ہو جائیں گے۔‘‘ [1] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے گھروں کو جو (بلاعذر)جمعے سے پیچھے رہتے ہیں، جلا دینے کا قصد فرمایا۔[2] معلوم ہوا کہ جمعہ چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس پر شدید وعید ہے، لہٰذاہر مسلمان پر جمعہ پڑھنا فرض ہے۔ اس میں ہرگز سستی نہیں کرنی چاہیے۔ جب خطیب منبر پر آجائے اور اذان ہو جائے تو سارے کاروبار حرام ہو جاتے ہیں۔ جمعے کے متفرق مسائل: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان ہے، اس پر جمعہ فرض ہے۔ غلام، عورت، نابالغ بچہ اور مریض جمعے کی فرضیت سے مستثنیٰ ہیں۔‘‘ یعنی چاہیں تو پڑھ لیں ورنہ ظہر کی نماز ادا کریں۔[3] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دیہاتیوں پر بھی نماز جمعہ فرض ہے کیونکہ انھیں اس عام حکم سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ ٭ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جمعے کے دن خوب اچھی طرح نہا کر جلدی سے پیدل مسجد جائے، سوار ہو کر نہ جائے، امام کے نزدیک بیٹھ کر دل جمعی سے خطبہ سنے اور کوئی لغو بات نہ کرے تو اسے ہر قدم پر ایک برس کے روزوں اور اس کی راتوں کے قیام کا ثواب ہوگا۔‘‘ [4] سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس قدر پاکی حاصل ہو سکے کرے، (مونچھیں کترے، ناخن کاٹے، زیرناف بال مونڈے اور بغلوں کے بال اکھیڑے) پھر اپنا تیل یا اپنے گھر (والی کی خوشبو)سے خوشبو لگائے اور (جمعے کے لیے)مسجد جائے( وہاں) دو آدمیوں کے درمیان تفریق نہ ڈالے (بلکہ جہاں جگہ ملے اسی پر اکتفا کرے) پھر اپنی نماز پڑھے جتنی اس کی قسمت میں ہے، پھر دوران خطبہ میں خاموش رہے تو اس کے گزشتہ جمعے سے لے کر اس جمعے تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘[5]
[1] صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 865۔ [2] صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 652۔ [3] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 1067، وسندہ صحیح، امام نووی نے المجموع: 483/4 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [4] [صحیح] جامع الترمذي، الجمعۃ، حدیث: 496، وسنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 345، وسندہ صحیح، امام ترمذی نے اسے حسن جبکہ امام ابن حبان نے حدیث: 559 میں، امام حاکم نے المستدرک: 282,281/1 میں اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [5] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 883۔