کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 236
مدینے میں ظہر اور عصر کو جمع کر کے پڑھا، حالانکہ وہاں (دشمن کا کوئی) خوف تھا، نہ سفر کی حالت تھی۔(راوی) ابوزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ سعید نے جواب دیا: جس طرح تم نے مجھ سے دریافت کیا ہے، اسی طرح میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا تو انھوں نے یہ جواب دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو دشواری میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔[1]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے خوف اور سفر کےبغیر ظہر و عصر کو اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا۔[2]
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرے میں عصر کے بعد ہمیں خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے چمکنے لگے۔ کسی نے کہا کہ نماز (مغرب)کا وقت ہو چکا ہے۔ انھوں نے فرمایا: مجھے سنت نہ سکھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے شبہ پیدا ہوا، میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انھوں نے ان کی تصدیق کی۔[3]
وضاحت: ان روایات سے معلوم ہوا کہ شدید ضرورت اور شرعی عذر کی بنا پر حضر میں کبھی کبھار جمع بین الصلاتین جائز ہے لیکن یہ یاد رہے کہ بغیر عذر کے ایسا کرنا یا اسے معمول بنا لینا غلط ہے، یعنی ناگزیر قسم کے حالات (شرعی عذر) میں حالتِ قیام میں بھی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جا سکتی ہیں، تاہم شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں، جیسے کاروباری لوگوں کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے دو نمازیں جمع کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔ سوائے ناگزیر حالات کے ہر نماز اس کے مقررہ وقت ہی پر پڑھنا ضروری ہے۔
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 705-(50)۔
[2] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 705۔
[3] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 705-(57)۔