کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 234
تک قصر کر سکتا ہے۔ دوسرا مسلک 14دن کا اور تیسرا مسلک 3 دن کا ہے۔ آخری مسلک کو علمائے اہل حدیث کی اکثریت نے راجح قرار دیا اور اختیار کیا ہے۔[1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں) 19دن قیام کیا اور قصر کرتے رہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اگر ہم سفر میں کہیں 19دن اقامت کریں گے تو ہم قصر کریں گے اگر انیس دن سے زیادہ اقامت کریں گے تو پوری نماز پڑھیں گے۔[2] سفر میں اذان اور جماعت: سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دو آدمی، میں اور میرا چچازاد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم سفر پر جاؤ تو اذان اور اقامت کہو، پھر تم میں جو بڑا ہو، وہ امامت کرائے۔‘‘[3] سفر میں دو نمازیں جمع کرنا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر میں ظہر و عصر کو اور مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے۔[4] ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز کو ملا کر پڑھنا ’’جمع‘‘ کہلاتا ہے۔ جمع کی دو صورتیں ہیں: جمع تقدیم: ظہر کے وقت میں نمازِ ظہر کے ساتھ نمازِ عصر اور مغرب کے وقت میں نمازِ مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھنا۔ جمع تاخیر: عصر کے وقت میں نمازِ عصر کے ساتھ نمازِ ظہر اور عشاء کے وقت میں نمازِ عشاء کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنا۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے وقت میں نماز عصر کے ساتھ جمع فرما لیتے اور اگر سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اسی وقت، یعنی ظہر کے وقت میں ادا فرماتے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے وقت میں نمازِ عشاء کے ساتھ
[1] تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے: إتحاف الکرام شرح بلوغ المرام، الصلاۃ، حدیث: 425,421۔ [2] صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1080۔ [3] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 630۔ [4] صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1107، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 705-(51)۔