کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 232
نمازِ سفر
سفر میں نماز ظہر، نماز عصر اور نماز عشاء کی چار چار فرض رکعتوں کو دو دو پڑھنا قصر کرنا یعنی کم کرنا کہلاتا ہے۔ نماز فجر اور نماز مغرب میں قصر نہیں ہے۔ جو شخص ارادئہ سفر کے ساتھ اپنے گھر سے چلے اور اپنی آبادی سے نکل جائے تو وہ از روئے شریعت مسافر ہے اور اپنی فرض نماز میں قصر کر سکتا ہے، چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(( أنَّ رَسولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلّى الظُّهْرَ بالمَدِينَةِ أَرْبَعًا، وَصَلّى العَصْرَ بذِي الحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ))
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ظہر کی نماز چار رکعتیں پڑھیں اور ذو الحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعتیں پڑھیں۔‘‘ [1]
ذو الحلیفہ ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین (شرعی) میل کے فاصلے پر ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو ذوالحلیفہ پہنچ کر نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں عصر میں قصر کر لی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین (شرعی) میل یا تین فرسنگ کی مسافت پر نکلتے تو نماز دو رکعتیں پڑھتے تھے۔[2]
اس حدیث میں راویٔ حدیث شعبہ نے پوری ایمانداری سے کام لیتے ہوئے تین میل یا تین فرسنگ کہا ہے، یعنی اسے شک ہے کہ اس کے استاذ نے تین میل یا تین فرسنگ (نو میل) کا بتایا ہے، لہٰذا مسافر کو چاہیے کہ احتیاطًا نو میل پر قصر کر لے۔( اپنی آبادی کی حدود سے نکلنے کے بعد) اگر منزل مقصود نو (9) میل یا اس سے زیادہ فاصلے پر واقع ہو تو مسافر قصر کر سکتا ہے۔
[1] صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1089، 1547,1546، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 690، واللفظ لہ۔
[2] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 691۔