کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 229
قیامِ رمضان:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قیام رمضان کی التزاماً رغبت دلاتے اور فرماتے تھے:
(( مَن قامَ رمضانَ إيمانًا واحتِسابًا غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ ))
’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتیں باجماعت قیام رمضان کیا:
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (رمضان المبارک کے) روزے رکھے۔( شروع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ مہینے میں سے ایک دن بھی قیام نہ کیا یہاں تک کہ 23 ویں رات کو آپ نے ہمیں قیام رمضان کرایا، پھر آپ نے 24 ویں رات چھوڑ کر 25 ویں رات کو، پھر 26 ویں رات چھوڑ کر 27 ویں شب کو اپنے اہل خانہ اور اپنی خواتین سمیت سب لوگوں کو جمع کر کے قیام کیا۔ اور فرمایا: ’’جو شخص امام کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتا ہے، اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔‘‘ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تین رات کے بعد) فرمایا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ تمھارا معمول برابر قائم ہے تو مجھے خطرہ لاحق ہوا مبادا تم پر (یہ نماز )فرض کر دی جائے (اس لیے میں گھر سے نہیں نکلا) چنانچہ تم اپنے اپنے گھروں میں (رمضان کی راتوں کا )قیام کرو۔ آدمی کی نفل نماز گھر میں افضل ہوتی ہے۔‘‘ [3]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی امام کے پیچھے باجماعت قیام رمضان (دوبارہ) شروع کرایا مگر یہ بھی فرمایا: رات کا آخری حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں، رات کے ابتدائی حصے سے بہتر ہے جس میں لوگ قیام کرتے ہیں۔[4]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین شب قیام رمضان کرانے کے بعد لوگوں سے فرمایا:’’تم اپنے گھروں میں پڑھا کرو۔‘‘ امام زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہی طریقہ جاری رہا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں بھی اسی پر عمل ہوتا رہا، (پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک
[1] صحیح البخاري، صلاۃ التراویح، حدیث: 2009، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 759۔
[2] [صحیح] سنن أبي داود، شھر رمضان، حدیث: 1375، وسندہ صحیح، وجامع الترمذي، الصوم، حدیث: 806۔ امام ترمذی نے، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 919 میں اور امام ابن خزیمہ نے حدیث: 2206 میں اسے صحیح کہاہے۔
[3] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 731، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 781۔
[4] صحیح البخاري، صلاۃ التراویح، حدیث: 2010۔